Aaj News

جمعہ, مئ 10, 2024  
01 Dhul-Qadah 1445  

دنیا کی چاند کے جنوبی اندھیرے حصے میں دلچسپی کیوں

چاند کے جنوبی قطب میں اترنے بھارت بازی لے گیا، لیکن وہاں ایسا کیا ہے؟
شائع 23 اگست 2023 08:00pm

بھارتی خلائی ایجنسی نے چاند کے جنوبی قطب پر کامیابی سے اپنا خلائی جہاز ”چندریان 3“ اتار لیا ہے، یہ ایک ایسا مشن ہے جو بھارت کو خلائی دوڑ سب سے آگے لاکھڑا کرسکتا ہے اور چاند پر پانی کی برف کی شکل میں موجودگی کے بارے میں معلومات کو بڑھا سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر چاند کے سب سے قیمتی وسائل میں سے ایک ہے۔

چاند کے جبوی قطب پر منجمد پانی کی موجودگی کو اہم ترین پیشرفت سمجھا جائے گا۔

خلائی ایجنسیاں اور نجی کمپنیاں چاند کی اس حصے کو وہاں کالونی قائم کرنے، قمری کان کنی، اور مریخ کے ممکنہ مشن کے ایک اہم حصے کے طور پر دیکھتی ہیں۔

1960 کی دہائی کے اوائل میں اپولو کی پہلی لینڈنگ سے پہلے سائنسدانوں نے قیاس کیا تھا کہ چاند پر پانی موجود ہو سکتا ہے۔

1960 کی دہائی کے آخر اور 1970 کی دہائی کے اوائل میں اپالو کا عملہ تجزیے کے لیے جو نمونے واپس لایا وہ خشک نکلے۔

اس کے بعد 2008 میں، براؤن یونیورسٹی کے محققین نے نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ان چاند کے نمونوں پر نظرثانی کی اور آتش فشائی شیشے کے چھوٹے ذرات کے اندر ہائیڈروجن کو پایا۔

2009 میں ہندوستانی خلائی تحقیقی ادارے کے چندریان-1 پروب میں نصب ناسا کی ایک ڈیوائس نے چاند کی سطح پر پانی کا پتا لگایا۔

اسی سال، قطب جنوبی پر کی گئی ناسا کی ایک اور ریسرچ میں چاند کی سطح کے نیچے برف کو پایا۔

1998 میں ناسا کے ایک مشن لونر پراسپیکٹر کو اس بات کا ثبوت ملا کہ قطب جنوبی کے سایہ دار گڑھوں میں برف کی شکل میں پانی کا بڑا ذخیرہ ہے۔

سائنس دان چاند پر مود اس قدیم برف میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ یہ قمری آتش فشاں، زمین پر گرے شہاب ثاقب اور ایسٹرائیڈ، اور سمندروں کی اصلیت کا ریکارڈ فراہم کر سکتے ہیں۔

اگر برف کافی مقدار میں موجود ہو تو یہ چاند پر دوسرے مشنز کے لیے پینے کے پانی کا ذریعہ بن سکتی ہے اور مشینوں کو ٹھنڈا کرنے کیلئے استعمال کی جاسکتی ہے۔

مزید پڑھیں

چاند کیلئے بھارتی مشن ’چندریان -3‘ کی کامیابی یا ناکامی کا علم کب ہوگا

ہم اتنے پاپڑنہیں بیلتے: بھارتی میڈیا پرفواد چوہدری کے وائرل بیان کی حقیقت کیا ہے

بھارتی خلائی مشن سے لی گئی چاند کی پہلی ویڈیو سامنے آگئی

اسے مریخ مشن یا چاند پر کان کنی کیلئے بھیجے جانے والے انسانوں کیلئے ایندھن کے لیے ہائیڈروجن اور سانس لینے کے لیے آکسیجن پیدا کرنے کے لیے بھی توڑا جا سکتا ہے۔

خیال رہے کہ 1967 میں کیے گئے اقوام متحدہ کے ایک بیرونی خلائی معاہدے کے تحت کوئی بھی ملک چاند پر ملکیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ لیکن اس میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جو تجارتی کارروائیوں کو روکے۔

چاند پر تحقیق اور اس کے وسائل کے استعمال کے لیے اصولوں کا ایک سیٹ قائم کرنے کے لیے امریکی قیادت میں کی جانے والی کوشش ”آرٹیمس ایکارڈز“ پر 27 ممالک کے دستخط ہیں۔ چین اور روس نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

Chandrayaan 3

South Pole of Moon

Far Side of Moon

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div