Aaj News

منگل, مئ 07, 2024  
28 Shawwal 1445  

عام انتخابات کا نوٹیفکیشن جاری، صدر اور الیکشن کمیشن کا تنازع غیر ضروری طور پر سپریم کورٹ لایا گیا، حکمنامہ

آئین اور قانون میں عدالت کا الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار نہیں، چیف جسٹس
اپ ڈیٹ 03 نومبر 2023 05:36pm
سپریم کورٹ آف پاکستان۔ فوٹو — فائل
سپریم کورٹ آف پاکستان۔ فوٹو — فائل

سپریم کورٹ آف پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ پر صدر مملکت عارف علوی نے دستخط کردیے جس کے بعد اٹارنی جنرل نے کاپی عدالت میں جمع کرادی، جس کے بعد الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین اور قانون میں عدالت کو الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار نہیں۔

سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے، جس کے مطابق الیکشن 8 فروری 2024 کو ہوں گے۔

الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 کے تحت تاریخ کا اعلان کیا۔ اٹارنی جنرل نے الیکشن کمیشن کا جاری کردہ نوٹیفکیشن بھی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ نوٹیفکیشن پر 3 نومبر کی تاریخ درج تھی۔

سپریم کورٹ نے 90 روز میں عام انتخابات کی تمام درخواستیں نمٹادی ہیں، اور حکمنامہ جاری کیا ہے کہ ‏انتخابات کا معاملہ تمام فریقین کی رضامندی سےحل ہوچکا ہے، 8 فروری کو عام انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ہوا ہے۔

سپریم کورٹ میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات کرانے کی کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کی، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بھی بینچ میں شامل ہیں۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور اعوان نے صدر مملکت کے دستخط شدہ منٹس عدالت میں پیش کردیئے، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ اوریجنل ہیں یا کاپیاں ہیں۔

منصور اعوان نے جواب دیا کہ ایک اوریجنل ہے باقی تین کاپیاں ہیں، اس کے بعد اٹارنی جنرل نے صدر اور الیکشن کمیشن حکام کے مابین ہونے والی کل کی ملاقات کے منٹس بھی عدالت عظمیٰ کو پڑھ کر سنائے۔

ہم سب خوش ہیں کسی کو کوئی اعتراض نہیں

سماعت کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوانا شروع کیا تو ریمارکس دیئے کہ اگر سب خوش ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، الیکشن کمیشن اور تمام فریقین کی رضامندی ہے، تمام ممبران نے متفقہ طور پر تاریخ پر رضا مندی دی ہے۔

چیف جسٹس کے ریمارکس پر تمام فریقین کے وکلا نے جواب دیا کہ ہم سب خوش ہیں کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئینی بحث کو آئندہ کیلئےچھوڑ دیا ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ امید کرتے ہیں کہ آئندہ ایسی صورتحال نہیں پیدا ہو گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی نے آئین کی شق 48(5) کا حوالہ نہیں دیا، اس نقطے پر بحث پھر کبھی کریں گے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اللہ کرے آئندہ ایسی نوبت نہ آئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹھیک ہے اب ہم حکمنامہ لکھواتے ہیں، تمام فریقین بیٹھ جائیں، حکمنامہ لکھوانے میں وقت لگے گا تھک نہ جائیں۔

چیف جسٹس نے حلفہ نامہ لکھواتے ہوئے سوال کیا کہ کیا پانچوں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو انتخابات کی تاریخ پر اعتراض ہے۔

چیف جسٹس کے استفسار پر کسی ایڈووکیٹ جنرل نے انتخابات کی تاریخ پر اعتراض نہیں کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام صوبائی حکومتوں کوبھی تاریخ کا پابند کر رہے ہیں۔

عدالتی حکمنامہ

عدالت نے انتخابات کیس کا حکم نامہ لکھوایا کہ صدر نے وزیراعظم کی تجویز پر 9 اگست کو اسمبلی تحلیل کی، اسمبلی تحلیل کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونا تھا، صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان انتخابات کی تاریخ پر ڈیڈ لاک ہوگیا۔

حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن نے صدر کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا، صدر کے خط اور الیکشن کمیشن کے مؤقف سے عدالت مشکل میں آ گئی، آئین اور قانون میں عدالت کا الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار نہیں۔

حکم نامے میں ہے کہ صدر نے آرٹیکل 186 کے تحت عدالت سے رجوع نہیں کیا، صدر اور الیکشن کمیشن سمیت سب کو وہی کرنا چاہیے جو آئین کی منشا ہے، آئین پر عمل کرنا کوئی آپشن نہیں بلکہ ذمہ داری ہے، کوئی ادارہ دوسرے کی آئینی حدود میں مداخلت کرے تو نتائج سنگین ہوں گے۔

حکمنامے میں لکھا گیا کہ صدر اور الیکشن کمیشن کا تنازع غیر ضروری طور پر سپریم کورٹ لایا گیا، پورا ملک انتخابات کی تاریخ کیلئے تشویش میں مبتلا تھا، کچھ لوگوں کو خدشہ تھا شاید انتخابات ہونگے ہی نہیں، آئین کے تحت سپریم کورٹ ایسا اختیار استعمال نہیں کر سکتی جو اسے حاصل نہ ہو، عدالت نے صدر اور الیکشن کمیشن کے امور میں مداخلت نہیں کی بلکہ عدالت نے صدر اور الیکشن کمیشن کو تاریخ کے تعین میں سہولت کاری کی۔

عدالتی حکم نامہ میں لکھا گیا کہ آئینی عہدہ جتنا بڑا ہوگا ذمہ داری بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی، آئین پر عمل کرنا ہر شہری کا بنیادی فرض ہے، صدر، چیف الیکشن کمشنر اور ارکان آئین کے تحت کیے گئے حلف کے پابند ہیں۔

آج ہونے والی سماعت کا احوال

قبل ازیں اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور اعوان نے سپریم کورٹ میں پیش ہوکر کہا کہ گزشتہ روز ہونے والے الیکشن کمیشن اجلاس کے میٹنگ منٹس کا انتظار ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میٹنگ منٹس آنے تک ہم دیگر مقدمات سن لیتے ہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا۔

سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آکر صدر مملکت سے الیکشن کمیشن کی ملاقات کے منٹس پیش کیے۔

منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن حکام صدر مملکت سے ملے، کل صدر علوی سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سمیت دیگر ممبران کی ملاقات ہوئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صدر مملکت کے دستخط کہاں ہیں؟ تو اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ صدر کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی تھی، البتہ ان نے دستخط کرالیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر نے اپنی رضامندی کا لیٹر الگ سے دیا ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ رضامندی کا خط کہاں ہے، صدر مملکت کے دستخط الگ ہیں، اسی لئے ان کی جانب سے آفیشلی تصدیق ہونی چاہئے۔

فاضل جج کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر کسی قسم کا ابہام نہیں چاہتے، کل کوٸی فریق آکر یہ نہ کہہ دےکہ مشاورتی عمل میں شامل نہیں تھا، اگر کوئی ایوان صدر سے آنا چاہتا ہے تو ہم اسے خوش آمدید کہیں گے، مشاورت کے ساتھ جو کچھ ہو وہ اچھی بات ہے۔

دوران سماعت عدالت عالیہ نے کہا کہ آئین کے مطابق صدر نے انتخابات کی تاریخ دینی ہے، لہٰذا صدر مملکت سے دستخط کرا کے ہمیں پیغام بھجوا دیں، جب دستخط ہوجائیں پھر کیس سنیں گے۔

سپریم کورٹ نے 90 روز میں انتخابات کرانے کے کیس کی سماعت میں ایک بار پھر وقفہ کردیا۔

گزشتہ روز کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا تھا کہ عام انتخابات کے لئے دی گئی تاریخ پر عملدرآمد کرنا ہوگا، ایک دفعہ تاریخ کا اعلان پتھر پر لکیر کی طرح ہوگا اور پھر تاریخ بدلنے نہیں دیں گے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے مشاورت کی ہدایت کی تھی، کمیشن صدر سے مشاورت کے بعد عدالت کو آگاہ کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان عام انتخابات 8 فروری 2024 کو کروانے پر اتفاق

سپریم کورٹ کا الیکشن کمیشن کو فوری عام انتخابات کا اعلان کرنے کا حکم

الیکشن کمیشن نے عدالت کو 11 فروری کے روز انتخابات کرانے کی تاریخ دی تھی جب کہ رات گئے الیکشن کمیشن اور صدر کے درمیان عدالتی حکم پر ملاقات ہوئی تھی۔

یہ بھی یاد رہے کہ صد علوی اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ 8 فروری کو انتخابات کرانے کے لئے متفق ہوگئے ہیں۔

Supreme Court

Election Commission of Pakistan (ECP)

SUPREME COURT OF PAKISTAN (SCP)

Election 2024

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div