پشاور کا جنگی محلہ، جہاں سے ہتھیار نہیں کتابیں افغانستان جاتی ہیں
پشاور میں ایک ایسا محلہ ہے جو نام سے تو جنگی ہے لیکن وہاں سے ”کتابیں“ افغانستان بھجوائی جاتی ہیں۔ البتہ طالبان عبوری حکومت کے بعد یہ برآمدات دینی کتابوں تک ہی محدود رہ گئی ہے۔
اپنے نام کے برعکس اس جنگی محلے سے کتابیں طورخم بارڈر کے راستے افغانستان بھجوائی جاتی ہیں، اس مارکیٹ میں دینی کتب کی 72 دکانیں ہیں۔
جنگی محلہ کے کاروباری افراد کہتے ہیں کہ طالبان حکومت کے آنے کے بعد مدارس کی تعداد بڑھی ہے۔ جس سے دینی کتب کی درآمدات بڑھ گئی ہیں۔
پشاور کی یہ قدیم دکان 1992 سے افغانستان کو کتابیں فراہم کر رہی ہے۔ مختلف ادوار میں ادب، شاعری اور دیگر کتابوں کی ترسیل پر پابندی کے باعث ان دکانوں کو خسارے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
کاروباری افراد کہتے ہیں کہ ایک سال سے زائد عرصے سے نصاب، شاعری اور ادب کی کتب کی ترسیل پر پابندی ہے۔
طالبان حکومت سے قبل افغانی طلبا پشاور سے ادب سمیت دیگر موضوعات پر کتب خریدتے تھے لیکن پابندی سے یہ طلبا بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
Comments are closed on this story.