خیبرپختونخوا میں گورنر راج پر کوئی بات نہیں ہوئی: پیپلز پارٹی
خیبرپختونخوا میں گورنر راج سے متعلق افواہوں پر پیپلز پارٹی قیادت اور گورنر فیصل کریم کنڈی نے دو ٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ تو اس معاملے پر کسی سطح پر مشاورت ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہمایون خان نے بھی آج نیوز سے گفتگو میں واضح کیا کہ گورنر راج یا گورنر کی تبدیلی کے حوالے سے پارٹی سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے حوالے سے گردش کرتی خبروں کو گورنر فیصل کریم کنڈی نے یکسر مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ صوبے میں گورنر راج کی باتیں صرف ٹی وی پر سنتے ہیں۔ “کل کیا ہوگا کچھ نہیں کہہ سکتا، البتہ اب تک اس بارے میں کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔”
گورنر کنڈی نے بتایا کہ نہ وزیراعظم اور نہ ہی پارٹی چیئرمین نے اس معاملے پر کوئی گفتگو کی ہے، جبکہ پیپلز پارٹی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ “آئین میں گورنر راج کی شق ضرور موجود ہے، مگر اس وقت ایسا کوئی فیصلہ زیر غور نہیں۔”
فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ گورنر کی تبدیلی سے متعلق انہیں میڈیا کے ذریعے پتا چلا۔ ’ہر چند ماہ بعد ایک شوشہ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر کبھی ایسا ہوا تو پارٹی کا فیصلہ قبول کروں گا۔‘
صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ صوبے کی مجموعی صورتحال احتجاجوں کی اجازت نہیں دیتی، امن وامان سمیت کئی مسائل ہیں، تاہم گورنر راج کی کوئی تجویز زیر بحث نہیں آئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہمایون خان نے بھی آج نیوز سے گفتگو میں واضح کیا کہ گورنر راج یا گورنر تبدیلی پر پارٹی سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
گورنر خیبرپختونخوا کو تبدیل کیے جانے کا امکان، 6 نام سامنے آگئے
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ آئین میں گورنر راج کی گنجائش ضرور ہے، اور حالات دیکھتے ہوئے کسی صوبے میں نافذ ہو سکتا ہے، لیکن فی الحال کسی قسم کی مشاورت یا فیصلہ موجود نہیں۔
ہمایون خان نے کہا کہ پارٹی کو اس حوالے سے صرف میڈیا کے ذریعے معلومات مل رہی ہیں، جبکہ پیپلز پارٹی ملک میں جمہوری نظام کے استحکام کے لیے کام کر رہی ہے۔
نئے گورنر کے ناموں پر قیاس آرائیاں
سیاسی حلقوں میں گفتگو ہے کہ اگر تبدیلی کی ضرورت پیش آئی تو پہلی ترجیح یہی ہوگی کہ صوبہ موجودہ گورنر فیصل کریم کنڈی کے سپرد رہے۔ ذرائع کے مطابق اگر ان کے نام پر اتفاق نہ ہو سکا تو امیر حیدر ہوتی، پرویز خٹک اور آفتاب شیرپاؤ کے نام زیر غور آسکتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر نئے گورنر کے لیے سیاسی ناموں پر اتفاق نہ ہو سکا تو پھر بعض سابق فوجی افسران کے نام بھی زیر غور آسکتے ہیں، جن میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد ربانی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) غیور محمود اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان شامل ہیں۔ تاہم وزیراعظم آفس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر راج کے حوالے سے کوئی معاملہ زیر غور نہیں ہے۔













