ننھے ابراہیم کی موت پر عوام کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا، آج پھر نیپا پر احتجاج کا اعلان
کراچی میں تین سالہ ابراہیم کے کھلے مین ہول میں گر کر جاں بحق ہونے کے دلخراش واقعے نے شہر بھر کو سوگوار کر دیا ہے۔ واقعے کے خلاف علاقہ مکینوں نے بھرپور احتجاج کیا اور آج شام چار بجے نیپا چورنگی کے قریب دوبارہ احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ احتجاج اُس شہر میں ہو رہا ہے جسے ملک کا معاشی دل کہا جاتا ہے، مگر یہاں کھلے مین ہولز ہی آئے دن انسانی جانیں لے رہے ہیں۔
واقعہ اتوار کی شب پیش آیا اور پیر کی بھی شب شہریوں نے جائے وقوعہ کے قریب شدید احتجاج کیا جس کے باعث نیپا سے حسن اسکوائر جانے والا ٹریک کئی گھنٹے بند رہا۔ مشتعل افراد نے ٹائر نذرِ آتش کیے، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کے خلاف نعرے لگائے۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر انتظامیہ کی غفلت کے خلاف تحریریں درج تھیں۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ان کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں، مگر میئر کراچی کو ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفا دینا چاہیے۔
ابراہیم کی لاش حادثے کے مقام سے تقریباً آدھا کلومیٹر دور نالے سے ملی۔ غمزدہ خاندان کے مطابق ننھا ابراہیم ان کی اکلوتی اولاد تھا۔
ننھا ابراہیم اپنے والدین کے ساتھ ڈپارٹمنٹل اسٹور آیا تھا۔ ہنستا کھیلتا باہر نکلا جہاں کھلے مین ہول نے اس کی زندگی نگل لی۔ ماں کی چیخ و پکار رات بھر علاقے میں گونجتی رہی، مگر سرکاری ادارے مدد کے لیے نہ پہنچ سکے۔ چودہ گھنٹے بعد بچے کی لاش ملی، مگر ایک بے جان جسم کی صورت میں۔
عینی شاہدین کے مطابق ریسکیو ٹیمیں تاخیر سے پہنچیں، جبکہ متعلقہ سرکاری افسران پہلے ہی گھروں کو جا چکے تھے۔ دادا اور دیگر اہل علاقہ نے انتظامیہ کی سنگین غفلت کو واقعے کا ذمہ دار قرار دیا۔
اہلِ علاقہ نے بتایا کہ ریسکیو ادارے مشینری لانے میں ناکام رہے، جس کے بعد لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ہیوی مشینری بلوائی۔ ڈیزل کے پندرہ ہزار روپے بھی غمزدہ باپ کو خود ادا کرنا پڑے۔ علاقہ مکینوں نے سرکاری اداروں کی نااہلی اور عدم تعاون پر شدید غم و غصہ ظاہر کیا۔
ابراہیم کی نمازِ جنازہ میں بڑی تعداد میں اہل علاقہ، سماجی، مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی۔ ابراہیم کو آہوں اور سسکیوں کے درمیان سپرد خاک کر دیا گیا۔
اہل علاقہ نے مطالبہ کیا کہ شہر بھر میں کھلے مین ہولز پر فوری ڈھکن لگائے جائیں تاکہ بار بار ہونے والے ایسے واقعات کا خاتمہ ہو سکے۔
صحافیوں نے جب میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سے اس واقعے پر استعفے سے متعلق سوال کیا تو وہ برہم ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”اشتعال انگیز گفتگو مسائل کے حل میں رکاوٹ ڈالتی ہے، کچھ لوگ اس واقعے پر سیاست کر رہے ہیں۔“
مرتضیٰ وہاب نے مزید کہا کہ انتظامیہ کی کوتاہی ثابت ہوئی تو کارروائی ہو گی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ”جہاں بچہ گرا وہ کوئی مین ہول نہیں بلکہ برساتی نالہ تھا، اور ایک سال میں تقریباً 88 ہزار گٹروں کے ڈھکن لگائے جا چکے ہیں۔“
شہریوں کا کہنا ہے کہ کراچی کی سڑکیں موت کے کنوؤں میں تبدیل ہو چکی ہیں، مگر حکمران جواب دینے کو تیار نہیں۔ مسلسل رونما ہونے والے واقعات نے شہریوں میں شدید بے چینی اور خوف پیدا کر دیا ہے۔
آج شام ہونے والا احتجاج بھی اسی غفلت کے خلاف ایک اور پکار ہے، جس میں متاثرہ خاندان اور علاقہ مکین انتظامیہ سے جواب دہی کا مطالبہ کریں گے۔












