ڈائنوسار کے 16 ہزار سے زائد قدموں کے نشانات دریافت ہونے پر سائنسدان حیران
جنوبی امریکا کے ملک بولیویا کے ٹورو ٹورو نیشنل پارک میں سائنسدانوں نے ایک قدیم ”ڈائنوسار ہائی وے“ دریافت کیا ہے، جہاں 16,600 تھیراپوڈز کے پاؤں کے نشانات ملے ہیں۔ تھیراپوڈز دراصل ڈائنوسارز کی ایک قسم ہے جو تین انگلیوں اور دو ٹانگوں پر چلنے والے، گوشت خور جانور تھے۔
یہ علاقے آج بھی اینڈیز پہاڑ، اٹاکاما صحرا اور ایمیزون کے گھنے جنگلات پر مشتمل ہیں۔ ڈائنوسارز کے یہ آثار ہمیں بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح چلتے، دوڑتے اور پانی میں تیرتے تھے، اور یہ علاقے ان کے معمول کے راستوں میں شامل تھے۔ سائنسدانوں نے ان کے پیروں کے نشانات کا حال ہی میں تفصیلی جائزہ لیا، جو ہمیں ان ڈائنوسارز کی روزمرہ حرکت اور عادات کو سمجھنے کا نادر موقع فراہم کرتا ہے۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق یہ ڈائنوسار تقریباً 66 سے 101 ملین سال پہلے، نرم اور گہری کیچڑ والی زمین پر چلتے ہوئے اپنے آثار چھوڑ گئے تھے۔ یہ تحقیق اس علاقے میں موجود ملنے والے پاؤں کے نشانات کا پہلا مکمل سروے ہے، جس کی کل جگہ تقریباً 7,485 مربع میٹر ہے۔ کچھ نشان الگ الگ ہیں، مگر زیادہ تر ایک لائن یا ٹریک ویز کی شکل میں ہیں، یعنی ایک ہی ڈائنوسار کے مسلسل قدموں کے نشانات ہیں۔
مگرمچھوں کی دو ٹانگوں پر دوڑنے کی صلاحیت: سائنس کی ایک حیران کن دریافت
ڈاکٹر جیری میک لارٹی، جو ٹیکساس کی ساؤتھ ویسٹرن ایڈونٹسٹ یونیورسٹی میں بائیولوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ڈائنوسار سائنس میوزیم اینڈ ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں، نے کہا، ”یہاں ہر جگہ آپ دیکھیں، صرف ڈائنوسار کے پیروں کے نشانات ہیں۔“
زیادہ تر نشانات شمال، شمال مغرب یا جنوب مشرق کی سمت میں ہیں، اور یہ غالباً ایک مختصر مدت میں بنے، جو بتاتا ہے کہ یہ جگہ تھیراپوڈز کے لیے ایک مشہور راستہ تھی۔ ممکن ہے یہ راستہ ارجنٹینا، بولیویا اور پیرو تک پھیلا ہوا ہو۔

پیروں کے نشان کی شکل اور فاصلے سے سائنسدان یہ بھی جان سکتے ہیں کہ ڈائنوسار کس طرح چل رہے تھے۔ ان میں کچھ آرام سے چل رہے تھے، کچھ دوڑ رہے تھے، اور تقریباً 1,300 نشانات میں، پانی میں تیرنے کے آثار بھی دیکھے گئے۔ بعض ٹریک ویز میں دُم کے نشان بھی موجود تھے، اور قدموں کی لمبائی اور چوڑائی سے معلوم ہوا کہ ڈائنوسارز کے قد مختلف تھے، کچھ کی بیک سائڈ کی اونچائی تقریباً 65 سینٹی میٹر تھی اور کچھ 125 سینٹی میٹر سے بھی زیادہ اونچائی رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ، ساحل پر چند سو پرندوں کے بھی پیروں کے نشان موجود تھے جو ڈائنوسارز کے ساتھ ایک ہی جگہ رہتے تھے۔
ڈائناسور کی کھال سے چمڑے کی تیاری، لگژری مصنوعات کو نیا رخ ملے گا؟
ڈاکٹر پیٹر فالکنِگھم، جو برطانیہ کی لیورپول جان موورز یونیورسٹی میں پیلیوبائیولوجی کے پروفیسر ہیں، نے بتایا کہ یہ پیروں کے نشانات پہلے نرم اور گہری کیچڑ میں بنے تھے اور مختلف گہرائیوں میں محفوظ ہیں۔ قدموں کے ان نشانوں سے سائنسدان یہ جان سکتے ہیں کہ ڈائنوسار اپنے پیروں کو کس طرح حرکت دیتے تھے، یعنی یہ ہمیں ان کی چلنے پھرنے کی عادات کا حقیقی انداز بتاتے ہیں۔ مثلاً پانی میں تیرنے والے پاؤں کے نشانات عام چلنے کے نشانات سے مختلف نظر آتے ہیں، کیونکہ پانی کے اثر سے درمیانی انگلی زیادہ گہری چھپی ہوتی ہے اور باقی انگلیاں اور ایڑی ہلکی چھاپ چھوڑتی ہیں۔

یہ پاؤں کے نچانات ہمیں وہ ماحول دکھاتے ہیں جہاں ڈائنوسارز رہتے اور حرکت کرتے تھے، اور ان کی جو ہڈیاں دریافت ہوئی ہیں ان کے مقابلے میں زیادہ حقیقت پسندانہ منظر پیش کرتے ہیں۔ ہڈیاں صرف یہ بتاتی ہیں کہ ڈائنوسارز کیا کر سکتا تھا، مگر پاؤں کے نشان یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ حقیقت میں کیا کر رہا تھا، کس رفتار سے چل رہا تھا، کس سمت میں جا رہا تھا، کس طرح پھسل رہا تھا اور کس طرح پلٹ رہا تھا یا مڑ رہا تھا۔
قوی الجثہ ڈائنوسارز دوسرے جانوروں سے پٹ جاتے تھے، نئی تحقیق میں انکشاف
یہ دریافت اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ یہاں مختلف قد کے تھیراپوڈز کے پیروں کے نشانات موجود ہیں، جو مختلف نسلوں یا مختلف عمر کے گروہوں کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں، اس لیے ان سے اصل مقام کا پتا نہیں چلتا، لیکن یہ نشان ہمیں یہ دکھاتے ہیں کہ ڈائنوسار کہاں اور کس وقت چل رہا تھا۔
ڈاکٹر میک لارٹی کہتے ہیں یہ بات بڑی دلچسپ لگتی ہے اور حقیقت دکھاتی ہے کہ ”یہ پاؤں کے نشان بلکل اسی جگہ موجود ہیں جہاں ڈائنوسار کبھی چل رہا تھا۔“
















