کیا ٹرمپ بی بی سی کے خلاف کیا گیا ہتکِ عزت کا مقدمہ جیت پائیں گے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی نشریاتی ادارے ‘بی بی سی’ کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرتے ہوئے کم از کم 10 ارب ڈالر ہرجانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹرمپ اور ان کے وکلا کا الزام ہے کہ بی بی سی نے ان کی 6 جنوری 2021 کو کی گئی ایک تقریر کو اس طرح ایڈٹ کر کے چلایا جس سے یہ تاثر ملا کہ انہوں نے اپنے حامیوں کو امریکی کیپیٹل ہل یعنی پارلیمنٹ کی عمارت پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا تھا۔ ٹرمپ نے ہمیشہ اس فساد کو بھڑکانے کے الزام کی تردید کی ہے۔
مقدمے میں ہتک عزت اور فلوریڈا کے تجارتی قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ ٹرمپ نے ہر الزام کے بدلے پانچ ارب ڈالر کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب بی بی سی نے تسلیم کیا ہے کہ ایڈیٹنگ گمراہ کن تھی اور اس پر ٹرمپ سے معافی بھی مانگی ہے، تاہم ادارے کا کہنا ہے کہ یہ غلطی غیر ارادی تھی اور اس بنیاد پر مقدمہ نہیں بنتا۔
اس واقعے اور بی بی سی نیوز پر ہونے والی کڑی تنقید کے نتیجے میں ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیو اور چیف ایگزیکٹو ڈیبورا ٹرنس کو اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینا پڑا ہے۔
ٹرمپ نے یہ مقدمہ فلوریڈا میں دائر کیا ہے جہاں ان کی رہائش ہے۔ انہوں نے جیوری ٹرائل کی درخواست کی ہے جو کہ امریکہ میں ایک معمول کی بات ہے۔
رائٹرز نے قانونی ماہرین کے حوالے سے بتایا کہ عدالت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا بی بی سی کا فلوریڈا میں اتنا عمل دخل ہے کہ وہاں مقدمہ چلایا جا سکے۔
ٹرمپ کے وکلا کا موقف ہے کہ بی بی سی کا وہاں دفتر موجود ہے اور اس نے اپنی ڈاکیومنٹری کے لیے ٹرمپ کی رہائش گاہ مار-اے-لاگو پر فلم بندی بھی کی تھی۔ اگرچہ یہ متنازع پروگرام امریکا میں نشر نہیں ہوا لیکن یہ آن لائن اسٹریمنگ سروسز کے ذریعے وہاں دیکھا جا سکتا تھا۔
امریکا میں عوامی شخصیات کے لیے ہتک عزت کا مقدمہ جیتنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ ٹرمپ کو نہ صرف یہ ثابت کرنا ہوگا کہ بی بی سی کا بیان جھوٹا تھا بلکہ یہ بھی دکھانا ہوگا کہ ادارے نے جان بوجھ کر یا لاپرواہی سے سچ کو نظر انداز کیا۔
مقدمے کی کارروائی کے دوران ٹرمپ کے وکلا بی بی سی کی اندرونی خط و کتابت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ کیا صحافیوں نے جان بوجھ کر ناظرین کو گمراہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
مقدمے میں بی بی سی کے ایک مشیر کا لیک ہونے والا میمو بھی شامل ہے جس میں ادارے کے اندر سیاسی تعصب پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔
بی بی سی اس مقدمے کا دفاع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ادارہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کا سہارا لے سکتا ہے جو آزادی رائے کا تحفظ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ بی بی سی یہ دلیل بھی دے سکتا ہے کہ ڈاکیومنٹری کافی حد تک سچائی پر مبنی تھی کیونکہ تحقیقاتی کمیٹی نے ٹرمپ کو ہی فسادات کا مرکزی ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
جہاں تک 10 ارب ڈالر کی بھاری رقم کا تعلق ہے تو ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا میں اکثر مدعی سمجھوتے کے لیے دباؤ ڈالنے کی غرض سے بڑی رقوم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس سے قبل ٹرمپ نے سی بی ایس کے خلاف بھی 20 ارب ڈالر کا مقدمہ کیا تھا جو بعد میں ایک کروڑ 60 لاکھ ڈالر میں طے پا گیا تھا۔















