فلم ''ایکٹر ان لاء" ایک نظر میں
جب 2014 میں 'نامعلوم افراد' منظرِعام پر آئی تو وہ پاکستانی فلم سازی میں ہوا کے ایک تازہ جھونکے کی مانند تھی،اس سے قبل پاکستانی کمرشل سینما دہائیوں سے اوسط درجے کی فلموں کے جال میں پھنسا ہوا تھا۔
نہ صرف ’نامعلوم افراد‘ کا مرکزی خیال مُنفرد تھا اور اس کے مکالمے تُند و تیز بلکہ اس فلم کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کے فلمسازوں کو پتہ ہے کہ فلمسازی کس چیز کا نام ہے۔
فلم کی عکاسی بہترین تھی، اس کی تدوین چُست، اور اس کے سکرین پلے کی رفتار عمومی طور پر نپی تُلی،فلم کو دیکھ کر یہ یقین نہیں آتا تھا کہ اس کے فلمسازوں کی یہ پہلی فیچر فلم ہے۔ لیکن یہ بات بھی اُن کی مہارت کی داد دینے پر مجبور کرتی تھی۔
آخرکار پاکستانی سینما کو وہ ہیرے مل گئے تھے جن کی اپنے سفر کو آگے بڑھانے کے لیے اُس کو عرصے سے تلاش تھی۔
'نامعلوم افراد'کی کمرشل اور ناقدانہ کامیابی کے فارمولے کو کئی فلموں نے دہرانے کی کوشش کی، لیکن انھیں وہ پذیرائی نہ مل سکی،کچھ فلموں نے باکس آفس پر پیسے ضرور کمائے لیکن کسی کو وہ کریٹکل کامیابی نہ مل سکی جو نامعلوم افرادکی جھولی میں آگری تھی۔
یہی وجہ تھی کہ سب کی توجہ نامعلوم افرادبنانے والی ٹیم کی اگلی فلم پر تھی اور اس فلم، یعنی ایکٹر اِن لا، جو عید پر ریلیز ہوئی ہے، سے توقعات آسمان کو چھوُ رہی تھیں۔
افسوس کے ساتھ یہ ماننا پڑے گا کہ یہ توقعات پوری نہیں ہوئی ہیں۔ ایکٹر اِن لا کسی حوالے سے بُری فلم نہیں ہے۔ اس کا دل صحیح جگہ پر ہے، دیکھنے میں فلم اچھی لگتی ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے بہت قابلیت والے فلمساز ہیں۔ لیکن اس فلم کا سکرپٹ اس کی کمزوری ہے، جو امکانی طور پر ایک بہترین طنز کو ایک غیرتسلی بخش خوش مزاج کہانی میں تبدیل کردیتا ہے۔
ڈائریکٹر نبیل قریشی اور پروڈیوسر فضا علی مرزا، جنھوں نے ایکٹر اِن لا کی کہانی اور اسکرین پلے مشترکہ طور پر لکھے (انہی دونوں نے نامعلوم افرادبھی لکھی تھی)، آغاز بہت زوردار انداز میں کرتے ہیں۔
کہانی کا محور شان مرزا (فہد مصطفیٰ) ہے، وہ ایک متوسط طبقے کا لڑکا ہے جو اداکار بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ اس کے والد، وکیل رفاقت مرزا (اوم پوری)، اس کے اِن خوابوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔
شان اُن کو قائل کرنے کے لئےکہ اداکاری ایک باوقار پیشہ ہے، قائدِاعظم کی مثال بھی استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے (جو کامیاب نہیں ہوتی) لیکن شوبز کی دنیا میں داخل ہونے کے مواقع کے فقدان اور اپنے والد کے طرف سے دباؤ شان کے حوصلوں کو پست کر دیتے ہیں۔
جب والد صاحب حج پر گئے ہوتے ہیں، حالات کچھ ایسے بنتے ہیں کہ شان ایک دن جعلی وکیل کے روپ میں ایک اصلی عدالت میں ایک فیکٹری سے نکالے گئے ورکرز کی طرف سے پیش ہو جاتا ہے۔ جہاں وہ صرف اپنی اداکاری کے زور پر کیس جیت لیتا ہے۔
یہاں سے شان کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوتا ہے، جس میں وہ سماجی مسائل کے بارے میں نت نئے مقدمے فری میں لڑنا شروع کر دیتا ہے۔ اِن سے اس کو شہرت بھی ملتی ہے اور وہ سیاستدانوں اور میڈیا کی نظر میں بھی آجاتا ہے۔
اس مرحلے پر کہانی میں شامل ہوتی ہیں مینوُ سکروُوالا (مہوش حیات)، ایک پارسی ٹی وی رپورٹر جس کو اپنے چینل کی سنسنی خیز پالیسیوں پر تنقید کرنے کی بنا پر نوکری سے نکالا جا چکا ہے۔ وہ شان کے ساتھ مل کر کام کرنے لگتی ہے۔
لوگوں کو شان کا غیر روایتی اسٹائل اور اس کا اُن اِیشوز پر آواز اٹھانا جو اُن کے بھی دل کی آواز ہو، پسند آتا ہے۔ جبکہ کچھ سیاستدان اور میڈیا کے وہ لوگ جو شان کی اچانک شہرت اور اکھڑپن سے ناخوش تھے اس کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔
فلم میں ایک رعب جمانے والا اینکر مدثّر سلطان (علی خان) ہے، جو پروگرام' کڑوا سچ'، 'بولڈ نیوز' نامی ٹی وی چینل پر پیش کرتا ہے۔ لیکن یہ بجائے سچ مُچ کے کردار بن کر اُبھرنے کے کریکٹر خاکے تک محدود رہ جاتے ہیں۔ اُن سے تھوڑی دیر کے لیے مزاحیہ پہلو ضرور نکالا جا سکتا ہے، لیکن ان کا کہانی کی اُٹھان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اداکاروں میں فہد مصطفیٰ خاص طور پر نمایاں ہیں، اور صرف اس لئے نہیں کہ لیڈ رول اُن کا ہے۔ ان میں ایک قدرتی پن ہے جو دل کو بہت لبھاتا ہے، ان کی ٹائمنگ بہترین ہے، اور وہ یقیناً ہر فلم کے ساتھ بہتر اداکار اور زیادہ بڑے سٹار بنتے جارہے ہیں۔
مہوش حیات اپنے لہجے اور حرکات کی بدولت ایک پارسی لڑکی کا رول بھی اچھی طرح نبھاتی ہیں، حالانکہ ان کا کریکٹر آخر میں سرسری سا ہی رہ جاتا ہے۔ اوم پوری نے تو خیر کبھی بُری پرفارمنس نہیں دی۔ لیکن وہ بھی یہاں اپنے کریکٹر کی صحیح طرح ڈیولپمنٹ نہ ہونے کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔
یہی حال کچھ علی خان کے کردار کا ہوتا ہے۔ چھوٹے کرداروں میں سلیم معراج، جو کہ ایک شوبِز پروموٹر ایجنٹ کے رول میں نظر آتے ہیں، خاص طور پر تحسین کے لائق ہیں۔ وہ یقیناً پاکستان کے چند نہایت ہی اچھے کریکٹر ایکٹرز میں سے ایک ہیں جن کو اب تک بہت کم استعمال کیا گیا ہے۔
بشکریہ :بی بی سی اردو
















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔