اسرائیل سے جنگ کی نئی خفیہ تفصیلات، امریکا نے کیسے ایران کو دھوکہ دیا
ایک مشترکہ صحافتی تحقیق میں دہائیوں پر محیط اسرائیلی اور امریکی مہم کے بارے میں نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں جن میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی اور اس کے اثرات شامل ہیں۔
‘واشنگٹن پوسٹ’ اور نیوز آؤٹ لیٹ ‘پی بی ایس’ کے پروگرام ‘فرنٹ لائن’ کے تعاون سے شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے امریکا کی براہِ راست اور بالواسطہ حمایت سے ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ایک کثیر جہتی آپریشن ”آپریشن نارنیا“ چلایا، جو ”رائزنگ لائن“ نامی وسیع تر مہم کا حصہ تھا۔ اس مہم میں ایرانی ایٹمی سائنس دانوں کے قتل، یورینیم افزودگی کی تنصیبات پر حملے اور دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے کے لیے کارروائیاں شامل تھیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کے تربیت یافتہ درجنوں ایجنٹ ایران میں تعینات تھے، جبکہ اسرائیلی فضائیہ کے پائلٹ ایرانی ایٹمی ڈھانچے، بیلسٹک میزائل لانچ پیڈز اور دفاعی نظاموں پر حملے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔
اسرائیل اور امریکا کے درمیان ایران کے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کے قریب پہنچنے کے حوالے سے باریک بینی سے مشاورت کی گئی۔ اس دوران ایران کو ممکنہ حملے سے بے خبر رکھنے کے لیے سفارتی چالیں بھی استعمال کی گئیں۔
اسرائیلی حکام نے ایٹمی پروگرام کو صرف عارضی نقصان پہنچانے کی بجائے اس کے ”ماسٹر مائنڈز“ کو نشانہ بنانے کی ضرورت محسوس کی، تاکہ وہ ایٹمی مواد کو ہتھیار میں تبدیل نہ کر سکیں۔
13 جون کی صبح، اسرائیلی افواج نے تہران میں رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا جس میں 11 ممتاز ایرانی ایٹمی سائنس دان، جن میں ماہر طبیعیات محمد مہدی تہرانچی اور سابق ایٹمی توانائی تنظیم کے سربراہ فریدون عباسی شامل تھے، ہلاک کر دیے گئے۔ ان حملوں نے ایران میں انتقام کی آگ بھڑکا دی اور سفارتی مذاکرات کے امکانات کم کر دیے۔
اسرائیل نے کینیڈین اراکین پارلیمنٹ کو مغربی کنارے میں داخلے سے روک دیا
سفارت کاری کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کو ایران پر حملے کے چار مختلف منصوبے پیش کیے، جن میں سے کچھ پر ٹرمپ نے سفارت کاری کے ذریعے ایران کو وقت دینے کا فیصلہ کیا جبکہ پسِ پردہ اسرائیل کے حملے کی حتمی منظوری بھی دی گئی۔ اس دوران میڈیا میں اسرائیل اور امریکا کے درمیان اختلافات کے تاثر کو جان بوجھ کر بڑھایا گیا تاکہ ایران غیر متوقع حملے کے لیے تیار نہ ہو۔
نقصانات کا تخمینہ لگاتے ہوئے امریکی اور اسرائیلی حکام نے کہا کہ ایرانی ایٹمی پروگرام کو پہنچنے والا نقصان ”تباہ کن“ تھا۔ آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی کے مطابق ایران کے پاس اب بھی 60 فیصد افزودہ یورینیم موجود ہے، لیکن اس کی جوہری صلاحیت پر حملوں سے نمایاں اثر پڑا ہے۔
رپورٹ میں سابق اور موجودہ اسرائیلی و امریکی حکام کے انٹرویوز شامل ہیں جن میں سے بعض نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر معلومات فراہم کیں۔
اسرائیل ماضی میں بھی ایرانی سائنس دانوں کو قتل کرتا رہا ہے لیکن ہمیشہ اس طرح کہ انکار ممکن ہو۔
مثال کے طور پر 2020 میں محسن فخری زادہ کو تہران کے باہر ہلاک کیا گیا تھا۔ لیکن جون میں ہونے والے حملوں سے اسرائیل کا کردار کھل کر سامنے آیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ”آپریشن نارنیا“ کے تحت اسرائیلی انٹیلی جنس تجزیہ کاروں نے ایران کے 100 اہم جوہری سائنس دانوں کی فہرست تیار کی، جسے بعد میں 12 اہداف تک محدود کیا گیا۔ امریکی سی آئی اے کے مطابق ایرانی وزارت دفاع کے یونٹ ”سپند“ میں محققین جوہری ہتھیار بنانے کے طریقے تلاش کر رہے تھے۔
صدر جو بائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اسرائیل اور امریکا اس بات پر متفق تھے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی سمت میں کام کر رہا ہے، لیکن انٹیلی جنس ایجنسیاں کبھی کبھار اس تشخیص میں اختلاف کرتی تھیں۔
امریکی اور اسرائیلی تجزیہ کاروں نے ممکنہ فیوژن ہتھیاروں کے امکانات کو بھی جانچا، لیکن یہ ایران کی صلاحیت سے باہر تھے۔
12 جون کو ”رائزنگ لائن“ آپریشن کے دوران آئی اے ای اے نے اعلان کیا کہ تہران نے جوہری عدم پھیلاؤ سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی ہے، جو 20 سال میں پہلی سرزنش تھی۔ اس کے بعد امریکی اور اسرائیلی حکام نے ایران کو سخت پیغامات بھیجے اور اسرائیل نے حملے کا فیصلہ کر لیا۔ حملے کے بعد ایران کے اہم جوہری مقامات میں نقصانات وسیع تھے، جس سے ایران کی یورینیم افزودگی کی صلاحیت متاثر ہوئی۔
انسٹی ٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکیورٹی کے مطابق حملے سے متعدد جوہری مقامات کو تباہ کن نقصان پہنچا، اور آئی اے ای اے نے بھی اس کی تصدیق کی کہ ایران کے پاس اب بھی تقریباً 900 پاؤنڈ 60 فیصد افزودہ یورینیم موجود ہے، جو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے درکار 90 فیصد سطح سے صرف ایک قدم دور ہے۔
غزہ میں سردی اور سیلاب سے 17 افراد جاں بحق، ’90 فیصد خیمے ڈوب چکے‘
رپورٹ کے مطابق ایران اب بھی چین کی مدد سے بیلسٹک میزائل ذخائر دوبارہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اور امریکا نے دھمکی دی ہے کہ اگر ایران دوبارہ اعلیٰ سطح پر یورینیم کی افزودگی شروع کرتا ہے تو نئے حملے کیے جائیں گے۔
ایرانی حکام نے اس کے باوجود کہا ہے کہ ایرانی جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ دریافت شدہ ٹیکنالوجی کو چھینا نہیں جا سکتا۔