Live
Bangladesh

بنگلہ دیش: اپوزیشن رہنما کا گھر باہر سے لاک کرکے آگ لگا دی گئی، 7 سالہ بچی جاں بحق

آتشزدگی کے نتیجے میں بی این پی رہنما کا گھر مکمل طور پر جل کر خاکستر ہو گیا
اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2025 02:59pm

بنگلہ دیش کے ضلع لکشمی پور میں نامعلوم افراد نے بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) کے مقامی رہنما کے گھر کا دروازہ باہر سے بند کر کے پٹرول چھڑکا اور آگ لگا دی۔ جس کے نتیجے میں 7 سالہ بچی جاں بحق جبکہ رہنما اور ان کی دو بیٹیاں شدید جھلس گئیں جو زخمی حالت میں اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔

بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق یہ واقعہ ہفتے کی صبح لکشمی پور کے چرمنشا گاؤں میں پیش آیا۔ متاثرہ گھر بلال حسین کا بتایا جا رہا ہے، جو بی این پی کے مقامی رہنما ہیں۔

آگ لگنے سے 7 سالہ بچی جاں بحق، 50 سالہ بلال حسین اور ان کی 17 اور 14 سالہ دو بیٹیاں جھلس کر زخمی ہوگئیں۔ آتشزدگی کے نتیجے میں بی این پی رہنما کا گھر مکمل طور پر جل کر خاکستر ہو گیا۔

بی این پی کے مقامی رہنماؤں کے مطابق حملہ آوروں نے پہلے دروازہ بند کیا، پھر پیٹرول چھڑک کر آگ لگائی، یہ پلاننگ کے ساتھ کی گئی دہشت گردی ہے۔ انہوں نے اس کارروائی میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔

لکشمی پور پولیس نے واقعے میں بچی کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس اس پہلو کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی یا نہیں۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں نوجوان طالبِ علم رہنما شریف عثمان ہادی کی ہلاکت کے بعد ڈھاکا سمیت ملک بھر میں شدید احتجاج اور پرتشدد مظاہرے جاری ہیں۔

بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک ’انقلاب منچا‘ کے ترجمان شریف عثمان ہادی کی نماز جنازہ آج دوپہر 2 بجے قومی پارلیمنٹ بلڈنگ کے جنوبی پلازہ میں ادا کردی گئی۔ عثمان ہادی کے انتقال پر آج بنگلہ دیش میں سوگ منایا جا رہا ہے۔

عثمان ہادی گزشتہ برس طلبہ کی قیادت میں ہونے والے احتجاج کے نمایاں رہنماؤں میں شامل تھے، جس کے نتیجے میں سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔ وہ بنگلہ دیش میں ہونے والے 12 فروری کے عام انتخابات کے لیے بھی امیدوار تھے۔

12 دسمبر کودارالحکومت ڈھاکا میں انتخابی سرگرمی کے دوران ہادی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔ وہ رکشے میں سفر کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو حملہ آوروں نے قریب آ کر ان پر فائرنگ کی، جس کے بعد انہیں زخمی حالت میں اسپتال منتقل کردیا گیا جہاں 19 دسمبر کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

ان کی ہلاکت کے بعد ڈھاکہ سمیت بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ مظاہرین نے سڑکوں کو جام کر دیا اور سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ اور بعض میڈیا دفاتر کو بھی نذر آتش کردیا۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج انصاف کے حصول کے لیے ہے، شفاف تحقیقات اور ملزمان کی گرفتاری تک مظاہرے جاری رہیں گے۔

خیال رہے کہ سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کے بعد ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت سمجھی جاتی ہے۔

بی این پی نے حالیہ دنوں میں انقلاب منچہ کے ترجمان شریف عثمان ہادی کی ہلاکت کے بعد ملک بھرمیں ہونے والے ہنگاموں کی مذمت کرتے ہوئے ذمہ دار عناصر کی فوری گرفتاری اور ان کے خلاف سخت سزاؤں کا مطالبہ کیا۔

بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق بی این پی کے سیکریٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالمگیر نے 19 دسمبر کو پارٹی کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری بیان میں پارٹی کے مؤقف کا اظہار کیا۔

انہوں نے شریف عثمان ہادی کے قتل میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری اور ان کے خلاف سخت عدالتی کارروائی کا مطالبہ کیا۔

مرزا فخرالاسلام نے روزنامہ پروتھم آلو اور دی ڈیلی اسٹار کے دفاتر پر حملے، دھان منڈی میں واقع ثقافتی ادارے چھایانٹ پر حملہ، دھان منڈی 32 کے تاریخی مقام کو نقصان پہنچانے اورعوامی لیگ کے رہنماؤں سے منسلک املاک پر حملے سمیت مکانات اور دکانیں پر حملوں کی بھی مذمت کی۔

انہوں نے ان تمام واقعات کو قومی انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی موجودگی میں کھلے عام ہونے والی یہ قانون شکنی نہ صرف ملک کے اندر بلکہ عالمی سطح پر بھی بنگلہ دیش کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں عبوری حکومت نے ملک میں 12 جنوری 2026 کو عام انتخابات اور ریفرنڈم کا اعلان کر رکھا ہے۔ عوامی لیگ پر پابندی کے باعث ان انتخابات میں بی این پی اور جماعت اسلامی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔

بنگلہ دیش میں ریفرنڈم کا مقصد ملک کے جمہوری اور آئینی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات لانا ہے تاکہ مستقبل میں آمریت کے لوٹنے کے امکانات کو روکا جا سکے اور ایک جوابدہ جمہوری نظام قائم ہو سکے۔

بنگلہ دیش کے انقلابی رہنما عثمان ہادی ڈھاکا یونیورسٹی کے احاطے میں سپردِ خاک

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس سمیت دیگر شخصیات نمازِ جنازہ میں شریک تھیں۔
اپ ڈیٹ 20 دسمبر 2025 06:40pm

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے پریس ونگ نے اعلان کیا ہے کہ انقلاب منچا کے ترجمان شریف عثمان ہادی کی نماز جنازہ ہفتے کے روز قومی پارلیمنٹ بلڈنگ کے جنوبی پلازہ میں ادا کردی گئی۔ عثمان ہادی کے انتقال پر بنگلہ دیش میں سوگ منایا جا رہا ہے۔

بنگلہ دیشی اخبار ڈیلی اسٹار کے مطابق انقلاب منچا نے اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں بتایا کہ خاندان کی خواہش کے مطابق شریف عثمان ہادی کو ڈھاکا یونیورسٹی کے احاطے میں قومی شاعر قاضی نذرالاسلام کی قبر کے پہلو میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔

اس موقع پر بنگلادیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس، وی سی (ڈھاکا یونیورسٹی) پروفیسر نیاز احمد خان، سینٹرل اسٹوڈنٹس یونین کے نائب صدرابو صادق قائم، انقلاب منچا کے رہنماؤں سمیت دیگر شخصیات موجود تھیں۔

پارٹی نے یہ بھی اعلان کیا کہ ہادی کی لاش کی عوامی نمائش نہیں ہوگی اور عوام سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ نظم و ضبط برقرار رکھتے ہوئے ان کے لیے دعا کریں۔

رپورٹ کے مطابق پارلیمنٹ کمپلیکس اور اس کے اطراف میں بھاری تعداد میں قانون نافذ کرنے والے اہلکار تعینات کیے گئے ہیں اور پورے علاقے میں سخت حفاظتی اقدامات نافذ کیے گئے ہیں۔

اس دوران عبوری حکومت کی اجنب سے علاقے میں ڈرون پرواز پر بھی پابندی عائد کی گئی اور جنازہ میں شرکت کے خواہش مند افراد سے درخواست کی گئی کہ وہ کوئی بیگ یا بھاری سامان ساتھ نہ لائیں۔

عثمان ہادی گزشتہ برس طلبہ کی قیادت میں ہونے والے احتجاج کے نمایاں رہنماؤں میں شامل تھے، جس کے نتیجے میں سابق بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت برطرف ہوئی تھی۔ وہ بنگلہ دیش میں ہونے والے 12 فروری کے عام انتخابات کے لیے بھی امیدوار تھے۔

12 دسمبر کو ڈھاکا میں انتخابی سرگرمی کے دوران ہادی پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔ وہ آٹو رکشے میں سفر کر رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار دو حملہ آوروں نے قریب آ کر ان کے سر پر گولیاں مار دیں۔

واقعے کے بعد انہیں فوری طور پر ڈھاکا میڈیکل کالج اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں ان کے دماغی تنوں کو شدید نقصان پہنچنے کی تصدیق ہوئی تھی۔

15 دسمبر کو بہتر علاج کے لیے انہیں سنگاپور جنرل اسپتال کے نیورو سرجیکل آئی سی یو منتقل کیا گیا، تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود وہ 19 دسمبر کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

’کل پورا بنگلہ دیش ہلا دوں گا‘: عثمان ہادی کے قاتل نے گرل فرینڈ کو حملے سے پہلے کیا بتایا؟

شریف عثمان ہادی کو گزشتہ ہفتے ڈھاکہ میں موٹرسائیکل سوار نقاب پوش حملہ آوروں نے گولی مار کر زخمی کیا تھا
شائع 20 دسمبر 2025 10:20am

بنگلہ دیش جمعرات کی شب سے شدید بھارت مخالف پُرتشدد مظاہروں اور افراتفری کی زد میں ہے۔ یہ مظاہرے بھارت مخالف رہنما شریف عثمان ہادی کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے، جس کے تانے بانے مبینہ طور پر بھارت سے جا ملے ہیں۔

ان مظاہروں کے دوران میڈیا ہاؤسز، ثقافتی مراکز اور یہاں تک کہ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کے گھر کو بھی جلادیا گیا۔

شریف عثمان ہادی کو گزشتہ ہفتے ڈھاکہ میں موٹرسائیکل سوار نقاب پوش حملہ آوروں نے گولی مار کر زخمی کیا تھا۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق حملے کے مرکزی ملزم فیصل کریم نے حملے سے پہلے ڈھاکہ کے ایک ریزورٹ میں اپنی گرل فرینڈ ماریا اختر لیما کو بتایا تھا کہ کل ایسا واقعہ ہوگا جو پورے بنگلہ دیش کو ہلا دے گا۔

اگلے روز فیصل اور اس کے دو ساتھیوں نے دن دہاڑے ہادی پر گولیاں چلائیں، جس کے باعث ہادی شدید زخمی ہوئے اور انہیں ہنگامی طور پر اسپتال پہنچایا گیا۔ بعد ازاں محمد یونس کی قیادت میں عبوری انتظامیہ نے انہیں فضائی ایمبولینس کے ذریعے سنگاپور منتقل کیا، جہاں چند دنوں کے علاج کے بعد وہ جان کی بازی ہار گئے۔

ہادی کی ہلاکت کے بعد بنگلہ دیش میں مکمل افراتفری پھیل گئی، اور ملک میں فروری 2026 میں ہونے والے اہم انتخابات کے پیش نظر سیاسی ماحول غیر مستحکم ہو گیا ہے۔

فیصل کا گرل فرینڈ کے حوالے سے یہ بیان گرفتار افراد اور تحقیقات سے حاصل شدہ ذرائع میں سامنے آیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملہ منصوبہ بندی اور ہم آہنگی کے تحت کیا گیا۔

تحقیقات میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ اس سازش میں کم از کم بیس افراد مختلف ذمہ داریوں میں شامل تھے، جن میں مالی معاونت، ہتھیاروں کی فراہمی، حملے کا نفاذ اور فرار کی سہولت فراہم کرنا شامل تھا۔

اب تک ریپڈ ایکشن بٹالین اور پولیس کی مشترکہ کارروائیوں میں نو افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ چھاپوں کے دوران ہتھیار، گولیاں، میگزین اور کروڑوں ٹکے کے چیک برآمد ہوئے۔

تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا کہ حملے میں استعمال ہونے والی موٹرسائیکل پر جعلی نمبر پلیٹ لگی تھی، اور حملہ آور مختلف جگہوں پر چھپ کر رہے۔

پولیس نے فیصل کے والدین کو حراست میں لیا اور ڈٹیکٹو برانچ کے حوالے کیا۔ دیگر گرفتار افراد میں فیصل کی بیوی ساجدہ پروین سامیہ، سسرال کے افراد، گرل فرینڈ ماریا اور دیگر شامل ہیں۔ تاہم فیصل کریم اور حملے میں شریک اصل افراد تاحال فرار ہیں۔

کچھ اطلاعات کے مطابق، فیصل اور اس کے ساتھی بھارت میں روپوش ہیں۔ اس دوران محمد یونس کی عبوری حکومت نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ حملہ آوروں کو گرفتار کر کے واپس بھیجے۔

بنگلہ دیش انتخابات میں خلل کی بھارتی سازش سامنے آگئی

عثمان ہادی کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خاموش کرایا گیا، مظاہرین
شائع 20 دسمبر 2025 08:49am

بھارت کی جانب سے بنگلہ دیش کے آئندہ عام انتخابات میں مداخلت اور انہیں سبوتاژ کرنے کی مبینہ سازش بے نقاب ہو گئی ہے۔ نوجوان طالب علم اور انقلابی رہنما شریف عثمان ہادی کے قتل کے بعد بنگلہ دیش میں بھارت کے خلاف شدید احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

بنگلہ دیشی تفتیشی حکام کے مطابق قتل میں ملوث مرکزی ملزم کی شناخت فیصل کریم مسعود کے نام سے ہوئی ہے، جبکہ موٹرسائیکل چلانے والے سہولت کار کا نام عالمگیر شیخ بتایا گیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ دونوں ملزمان بھارت سے بنگلہ دیش آئے تھے اور واردات کے فوراً بعد فرار ہو گئے، جس کے بعد واقعے کو سرحد پار سازش سے جوڑا جا رہا ہے۔

عثمان ہادی کے قتل پر دارالحکومت ڈھاکا سمیت راجشاہی، چٹاگانگ اور دیگر بڑے شہروں میں پُرتشدد مظاہرے دیکھنے میں آئے، جہاں مشتعل مظاہرین نے سڑکیں بند کر دیں اور پولیس کے ساتھ ان کی شدید جھڑپیں ہوئیں۔

مظاہرین نے عوامی لیگ کے متعدد دفاتر اور بعض میڈیا ہاؤسز کو بھی نذرِ آتش کر دیا، جب کہ راجشاہی میں بانیِ بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمان کے آبائی گھر کو بھی آگ لگا دی گئی۔

احتجاج کے دوران مظاہرین نے عثمان ہادی کے حق میں نعرے لگائے اور مطالبہ کیا کہ جب تک قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا، احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ عثمان ہادی محض ایک طالب علم نہیں بلکہ ایک انقلابی آواز تھے، جنہیں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خاموش کرایا گیا۔

عثمان ہادی کو گزشتہ جمعے 12 دسمبر کو ڈھاکا میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے شدید زخمی کر دیا تھا۔ انہیں فوری طور پر علاج کے لیے سنگاپور منتقل کیا گیا، تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق عثمان ہادی کو آئندہ انتخابات میں ڈھاکا سے ایک مضبوط اور مقبول امیدوار تصور کیا جا رہا تھا۔

ادھر ملک میں کشیدہ صورتحال کے پیش نظر عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے آج ملک بھر میں یومِ سوگ کا اعلان کر دیا ہے۔

سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں ہے، جبکہ امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے حساس علاقوں میں سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔

پاکستان بنگلادیش کو ہرا کر انڈر 19 ایشیا کپ کے فائنل میں پہنچ گیا

پاکستان نے بنگلہ دیش کا 122 رنز کا ہدف باآسانی 2 وکٹوں کے نقصان پر پورا کیا، ایونٹ کا فائنل اتوار کو بھارت اور پاکستان کے درمیان کھیلا جائے گا۔
شائع 19 دسمبر 2025 06:27pm

انڈر19 کرکٹ ایشیا کپ کے سیمی فائنل میں پاکستان نے بنگلادیش کو 8 وکٹوں سے شکست دے کر فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا۔ قومی ٹیم نے 122 رنز کا ہدف باآسانی 2 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کرلیا۔ ایونٹ کا فائنل اتوار کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا جائے گا۔

دبئی میں کھیلے گئے انڈر 19 ایشیا کپ کے دوسرے سیمی فائنل میں بارش کے باعث میچ تاخیر سے شروع ہوا، بارش کے باعث میچ کو 27، 27 اوورز تک محدود کردیا گیا تاہم پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے اپنے بولرز کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور بنگلہ دیش کو بیٹنگ کی دعوت دی۔

بنگلادیشی ٹیم بارش کے باعث 27 اوورز فی اننگ تک محدود میچ میں 26.3 اوورز میں 121 رنز بناکر آل آؤٹ ہوگئی۔ بنگلا دیش کی جانب سے سمیعون بصیر 33 اور عزیز الحکیم 20 رنزبنا کر نمایاں رہے اور رفعت بیگ نے 14 رنز بنائے جب کہ دیگر کوئی کھلاڑی ڈبل فگر میں داخل نہ ہوسکا۔

پاکستان کی جانب سے عبدالسبحان نے شاندار بالنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار وکٹیں حاصل کیں جب کہ حذیفہ احسن نے 2، علی رضا، محمد صیام اور احمد حسین کے حصے میں ایک ایک وکٹ آئی۔

جواب میں پاکستان نے بنگلہ دیش کی جانب سے دیا گیا 122 رنز کا ہدف 17 ویں اوور میں باآسانی 2 وکٹوں پر حاصل کرلیا۔ پاکستان کی جانب سے سمیر منہاس 69 رنز کیساتھ ناقبل شکست رہے، عثمان خان نے 27 اور احمد حسین نے 11 رنز بنائے۔

اس طرح دبئی میں ہونے والے بارش سے متاثرہ دوسرے سیمی فائنل میں پاکستان نے دفاعی چیمپئن بنگلادیش کو 8 وکٹوں سے شکست دے کر انڈر 19 ایشیا کے فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا۔

اس سے قبل آج ہی دبئی میں کھیلے گئے پہلے سیمی فائنل میں بھارت نے سری لنکا کو 8 وکٹوں سے شکست دے کر فائنل میں جگہ بنائی تھی۔ اب انڈر 19 ایشیا کپ کا فائنل اتوار 21 دسمبر کو دبئی میں ہی کھیلا جائے گا، جہاں ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں آمنے سامنے آئیں گی۔

بنگلہ دیش میں حالیہ احتجاج کی وجہ بننے والے عثمان ہادی کون ہیں؟

ڈھاکا پولیس کے مطابق عثمان ہادی کو12 دسمبرکو بیجوی نگرمیں انتخابی مہم کے دوران گولی ماری گئی۔
اپ ڈیٹ 19 دسمبر 2025 06:06pm

شریف عثمان ہادی کی موت کے بعد بنگلہ دیش میں بالخصوص ڈھاکا میں پرتشدد احتجاج پھوٹ پڑا۔ مختلف علاقوں میں جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ اورآتش زدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے، جبکہ مظاہرین نے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ صورتحال کے پیش نظر سیکیورٹی سخت کر دی گئی اور حکومت نے شہریوں سے تحمل کی اپیل کی ہے۔

عثمان ہادی پر حملہ ایسے وقت میں ہوا جب عام انتخابات میں صرف چند ماہ باقی تھے اور ایک دن پہلے ہی الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ ملک کے 13ویں پارلیمانی انتخابات 12 فروری 2026 کو منعقد ہوں گے۔

32 سالہ ہادی جولائی 2024 میں بنگلہ دیش کی عوامی بغاوت کے دوران ایک نمایاں کردار کے طور پر سامنے آئے تھے، جس کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

عثمان ہادی کو بھارت کا سخت ناقد اور طلبہ تحریک کا فرنٹ لائن فائٹر سمجھا جاتا تھا۔ وہ طلبہ رہنماؤں کی جانب سے قائم کیے گئے سیاسی پلیٹ فارم انقلاب منچہ کے ترجمان بھی تھے۔

مقامی میڈیا کے مطابق عثمان ہادی کا تعلق ضلع جھالوکٹھی کے نالچِٹی اپازِلا سے تھا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ان کی تنظیم انقلاب منچہ ایک بااثر سیاسی قوت بن چکی تھی، جو عوامی لیگ کو تحلیل کرنے کی مہم میں پیش پیش رہی۔

انقلاب منچہ نے عوامی لیگ کے سرگرم کارکنوں کو گرفتار کرنے اورطلبہ تحریک میں شامل کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے کی مہم چلائی تھی۔

دسمبر 2024 میں عثمان ہادی نے الزام عائد کیا تھا کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے خلاف گزشتہ برس طلبہ تحریک میں شامل کارکنوں کے قتل میں عوامی لیگ ملوث ہے۔

بنگلہ دیش کے مقامی اخبار ڈھاکا ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق ہادی نے یہ بھی کہا تھا کہ انہیں نامعلوم نمبروں سے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔

ڈھاکا پولیس کے ترجمان کے مطابق عثمان ہادی کو 12 دسمبر کو دو بج کر پچیس منٹ پر بیجوی نگر کے باکس کلورٹ روڈ پر گولی ماری گئی تھی۔ ابتدائی معلومات کے مطابق موٹر سائیکل پر سوار تین حملہ آوروں نے فائرنگ کی اور موقع سے فرار ہو گئے۔

عثمان ہادی کو فوری طورپرڈھاکا میڈیکل کالج اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کا آپریشن کیا گیا تاہم انہیں مزید علاج کے لیے 13 دسمبر کو سنگاپور منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ دورانِ علاج انتقال کرگئے۔

پولیس کے مطابق ہادی کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ ڈھاکا کے مرکزی علاقے بیجوی نگر میں اپنی آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابی مہم کا آغاز کر رہے تھے۔

ہادی کی موت کا اعلان ہوتے ہی بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے کہا کہ 19 دسمبر کو ملک بھر میں تمام عبادت گاہوں میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جائے گا۔

قوم سے خطاب میں پروفیسریونس نے کہا کہ مجرموں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔ انہوں نے 20 دسمبر کو یومِ سوگ کا اعلان کیا اور ہدایت دی کہ قومی پرچم سرکاری، نیم سرکاری اور خودمختار اداروں، تعلیمی اداروں، سرکاری و نجی عمارتوں اور بیرونِ ملک بنگلہ دیشی مشنز پر سرنگوں رکھا جائے۔

بنگلادیش میں پرتشدد احتجاج

.
شائع 19 دسمبر 2025 02:54pm

بنگلادیش میں نوجوان طالبِ علم رہنما شریف عثمان ہادی کی ہلاکت کے بعد ڈھاکا سمیت ملک بھر میں شدید احتجاج اور پرتشدد مظاہرے جاری ہیں۔ مظاہرین نے سڑکیں بند کیں اور سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے بعض میڈیا دفاتر کو نذر آتش کردیا۔ گزشتہ برس شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف طلبہ تحریک میں عثمان ہادی پیش پیش تھے جنہیں 12 دسمبر کو ڈھاکا میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا تھا۔ عثمان ہادی سنگاپور کے ایک اسپتال میں زیرِ علاج تھے جہاں وہ جمعرات کی شب دم توڑ گئے جس کے بعد ڈھاکہ سمیت بنگلہ دیش کے مختلف شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج انصاف کے حصول کے لیے ہے، شفاف تحقیقات اور ملزمان کی گرفتاری تک مظاہرے جاری رہیں گے۔

بنگلادیش: طلبہ تحریک کے رہنما کی ہلاکت کے بعد پُرتشدد احتجاج، عوامی لیگ کے دفاتر نذرِ آتش

دارالحکومت ڈھاکا میں مشتعل مظاہرین بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے
اپ ڈیٹ 19 دسمبر 2025 01:37pm

بنگلادیش میں نوجوان طلب علم رہنما شریف عثمان ہادی کی ہلاکت کے بعد ڈھاکا سمیت ملک بھر میں شدید احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ دارالحکومت ڈھاکا میں مشتعل مظاہرین بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے، جہاں انہوں نے عوامی لیگ اور متعدد میڈیا اداروں کے دفاتر کو نذر آتش کیا، توڑ پھوڑ کی اور اہم سڑکیں بند کردیں۔

احتجاج کے دوران مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں، جس کے باعث شہر کے مختلف علاقوں میں کشیدگی پھیل گئی۔

مظاہرین نے عثمان ہادی کے حق میں نعرے لگائے اور اعلان کیا کہ انصاف کی فراہمی تک احتجاج جاری رکھا جائے گا۔

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ شریف عثمان ہادی پر حملے کے ذمہ داروں کو فوری طور پر گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ واقعے کی شفاف تحقیقات کے بغیر احتجاج ختم نہیں کیا جائے گا۔

تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ عثمان ہادی پر حملہ کرنے والے مشتبہ افراد بھارت کی سرحد سے غیرقانونی طور پر داخل ہوئے تھے اور  بھارت ہی فرار ہوگئے۔

فائر بریگیڈ اور سول ڈیفنس کے ایک ترجمان نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ہادی کی موت کی خبر پھیلتے ہی جمعہ کی صبح ڈھاکا میں کم از کم آتش زنی کے تین واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں ڈیلی اسٹار کی عمارت اور پروتھم آلو اخبار کی عمارت شامل ہیں۔ یہ دونوں اخبارات جنوبی ایشیائی ملک میں سب سے بڑے ہیں، تاہم مظاہرین نے ان پر بھارت کے حامی ہونے کا الزام عائد کیا، جہاں شیخ حسینہ نے پناہ لے رکھی ہے۔

واضح رہے کہ شریف عثمان ہادی کو گزشتہ جمعے ڈھاکا میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا تھا، جس کے بعد انہیں علاج کے لیے سنگاپور منتقل کیا گیا، جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کرگئے۔

ان کی ہلاکت کے بعد بنگلادیش کے مختلف شہروں میں صورتحال بدستور کشیدہ ہے۔

عثمان ہادی کون تھا؟

شریف عثمان ہادی جولائی میں حسینہ واجد حکومت کا تختہ الٹنے والی طلبہ تحریک کے اہم رہنما تھے اور طلبہ رہنماؤں کے قائم کردہ سیاسی پلیٹ فارم انقلاب منچہ کے ترجمان بھی تھے۔

انہیں گزشتہ جمعے 12 دسمبر کو ڈھاکا میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا تھا۔ عثمان ہادی کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کا آپریشن کیا گیا تاہم انہیں مزید علاج کے لیے ہفتے کو سنگاپور منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ دورانِ علاج انتقال کرگئے۔

سقوطِ ڈھاکا: مشرقی پاکستان کو جدا ہوئے 54 برس بیت گئے

16 دسمبر 1971 کا دن، جب پاکستان کا مشرقی بازو جدا ہوا کر بنگلا دیش بن گیا۔
اپ ڈیٹ 16 دسمبر 2025 07:08pm

16 دسمبر 1971، وہ دن 1971 جب پاکستان کا ایک بازو مشرقی پاکستان، ہم سے جدا ہو کر ‘بنگلا دیش’ بن گیا۔ یہ ایک ایسا زخم ہے، جو نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی ہر پاکستانی کے دل میں تازہ ہے۔ اس سانحے کو سقوطِ ڈھاکہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جسے آج 54 برس مکمل ہوچکے ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد سب سے بڑا سانحہ ایک سال بعد ہی قائداعظم محمد علی جناح کی وفات تھا۔ ان کا دنیا سے رخصت ہونا تھا کہ سیاسی، معاشی اور آئینی مسائل پر تمام قوتوں کو متحد رکھنا ایک بڑا چیلنج بن گیا۔ مشرقی پاکستان کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 54 فیصد تھی اور مشرقی پاکستان کے عوام اسی اعتبار سے معاشی اور سماجی وسائل میں حق دار تھے۔

1947 میں ایک نظریے کی بنیاد پر متحد ہونے والے دو خطوں کے درمیان زبان کا مسئلہ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اقتدار کی منتقلی میں تاخیر نے خلیج پیدا کر دی۔ بھارت نے اس اندرونی خلفشار کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ‘مکتی باہنی’ جیسے جتھوں کے ذریعے نفرت کی آگ کو ہوا دی۔

مکتی باہنی ایک گوریلا عسکری تنظیم تھی جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلادیش کے قیام کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس تنظیم میں بنگالی فوجی، نیم فوجی دستے اور عام شہری شامل تھے۔ 1971 کی جنگ کے دوران بھارتی فوج نے مکتی باہنی کے تقریباً 1 لاکھ سے زائد جنگجوؤں کو تربیت، اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کیا۔

اس وقت کی بھارتی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے بھی مکتی باہنی کی حمایت کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کی جانے والی مداخلت قرار دیا اور عالمی سطح پر بنگلا دیش کے حق میں مہم چلائی۔


بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے 2015 میں اپنے دورہ بنگلا دیش کے دوران اعتراف کیا تھا کہ “بنگلا دیش کا قیام ہر بھارتی کی خواہش تھی اور بھارتی شہریوں نے اس خواب کو پورا کرنے میں فعال کردار ادا کیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان پہلا اختلاف سرکاری زبان کے معاملے پر پیدا ہوا۔ ستمبر 1947 میں ایک تعلیمی کانفرنس میں اردو کو واحد قومی زبان بنانے کی تجویز دی گئی، جس پر مشرقی بنگال کے طلبہ اور دانشوروں نے شدید احتجاج کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ چونکہ پاکستان کی اکثریت (تقریباً 54 فیصد) بنگالی بولتی ہے، اس لیے اسے بھی قومی زبان کا درجہ ملنا چاہیے۔

مسلسل احتجاج اور بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کے پیشِ نظر 7 مئی 1954 کو دستور ساز اسمبلی نے بنگالی کو پاکستان کی سرکاری زبانوں میں شامل کرنے کی قرارداد منظور کی۔ 1956 کے پہلے آئین میں باقاعدہ طور پر اردو اور بنگالی دونوں کو پاکستان کی قومی زبانیں تسلیم کر لیا گیا۔ کئی ماہرین اس تحریک کو مشرقی پاکستان میں بنگالی قوم پرستی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔

شیخ مجیب الرحمن نے فروری 1966 میں لاہور میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں اپنے مشہور ‘6 نکات’ پیش کیے۔ یہ نکات بنیادی طور پر مشرقی پاکستان کی وسیع تر سیاسی اور معاشی خود مختاری کا فارمولا تھے، جنہیں ‘بنگالیوں کا میگنا کارٹا’ (Magna Carta) بھی کہا جاتا ہے۔


ان نکات میں وفاقی پارلیمانی نظام، صوبائی خودمختاری، الگ کرنسی، ٹیکسوں کی وصولی، غیر ملکی تجارت کا اختیار اور صوبائی ملیشیا رکھنے کی اجازت جیسے معاملات شامل تھے۔ جس کے بعد ملک میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔

صدر ایوب خان اور مغربی پاکستان کی قیادت نے ان نکات کو ملک توڑنے کی سازش قرار دیا۔ ان کا موقف تھا کہ ان نکات پر عمل درآمد سے وفاق کمزور ہو جائے گا اور ملک عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔

حکومت نے شیخ مجیب پر بھارت کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی سازش کا الزام لگایا، جسے ‘اگرتلہ سازش کیس’ کہا جاتا ہے۔ ان نکات نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان سیاسی خلیج کو اتنا گہرا کر دیا کہ سمجھوتے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ مشرقی پاکستان میں اسے اپنی محرومیوں کا حل جبکہ مغربی پاکستان میں اسے علیحدگی کی بنیاد سمجھا جانے لگا۔


اکتوبر 1969 میں صدر یحییٰ خان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کے پہلے عام انتخابات کی راہ ہموار ہوئی۔ صدر یحییٰ خان نے لیگل فریم ورک آرڈر (LFO) جاری کیا جس کے تحت ‘ایک فرد، ایک ووٹ’ کا اصول اپنایا گیا۔ اس سے قبل مغربی اور مشرقی پاکستان کی نشستیں برابر تھیں، لیکن اب آبادی کے لحاظ سے مشرقی پاکستان کو قومی اسمبلی میں اکثریت (162 نشستیں) دے دی گئی جبکہ مغربی پاکستان کو 138 نشستیں ملیں۔


7 دسمبر 1970 کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے ان ہی 6 نکات کے منشور پر الیکشن لڑا اور مشرقی پاکستان میں کلین سویپ کیا۔ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 162 میں سے 160 نشستیں جیت کر قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی۔

اصولی طور پر شیخ مجیب الرحمان کو وزیراعظم بننا چاہیے تھا اور انہیں آئین بنانے کا حق حاصل تھا لیکن یہاں سے بحران نے جنم لیا۔ شیخ مجیب اپنے 6 نکات پر اڑے ہوئے تھے جبکہ بھٹو اور فوجی قیادت کا خیال تھا کہ یہ نکات پاکستان کی تقسیم کے مترادف ہیں۔


ذوالفقار علی بھٹو نے مطالبہ کیا کہ آئین سازی میں ان کی پارٹی کی مرضی بھی شامل ہونی چاہیے۔ انہوں نے ”دو اکثریتی پارٹیوں“ کا نظریہ پیش کیا اور ڈھاکہ جانے والے ارکانِ اسمبلی کو ”ٹانگیں توڑنے“ کی دھمکی دی۔ جس کے بعد صدر یحییٰ خان نے 3 مارچ 1971 کو ڈھاکہ میں ہونے والا قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ملتوی کر دیا۔ جس پر ڈھاکہ میں احتجاج اور سول نافرمانی کی تحریک نے جنم لیا۔

7 مارچ کو شیخ مجیب نے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”اس بار کی جدوجہد، ہماری آزادی کی جدوجہد ہے!“ اگرچہ انہوں نے باقاعدہ آزادی کا اعلان نہیں کیا، لیکن عملی طور پر مشرقی پاکستان کا انتظام عوامی لیگ نے سنبھال لیا۔


مارچ 1971 کے وسط میں ڈھاکہ میں یحییٰ خان، شیخ مجیب اور ذوالفقار بھٹو کے درمیان مذاکرات ہوئے لیکن یہ ناکام رہے۔ 25 مارچ 1971 کی رات یحییٰ خان نے فوجی آپریشن ”سرچ لائٹ“ کا حکم دے دیا، جس کے بعد خانہ جنگی شروع ہوئی اور بالآخر 16 دسمبر 1971 کو سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا۔

سوڈان: بنگلہ دیشی فوجیوں کو بچانے کے لیے پاک فوج کے آپریشن کی خبروں پر بنگلہ دیشی فوج کی وضاحت

سوشل میڈیا میڈیا پر خبریں زیر گردش ہیں کہ واقعے کے فوراً بعد پاکستانی کوئیک ری ایکشن فورس (کیو آر ایف) کو روانہ کیا گیا
شائع 14 دسمبر 2025 01:35pm

سوڈان میں ہفتے کو ہونے والے ڈرون حملے میں بنگلادیش سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے امن مشن کے چھ ارکان جاں بحق اور آٹھ زخمی ہوئے تھے، جس کے بعد سوشل میڈیا پر خبریں سامنے آئیں کہ پاکستانی فوج نے بیس پر موجود بقیہ بنگل دیشی فوجیوں کو ریسکیو کیا۔ تاہم، بنگلہ دیشی فوج نے ان افواہوں کی تردید کی ہے۔

اتوار کو سوشل میڈیا پر دعوے سامنے آئے کہ “اقوام متحدہ کے بنگلہ دیشی امن مشن پر حملے کے فوراً بعد پاکستان کی کوئیک ری ایکشن فورس (کیو آر ایف) کو روانہ کیا گیا، جس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا اور حملے کی زد میں آئے اقوامِ متحدہ کے بیس سے 41 بنگلہ دیشی فوجیوں کو بحفاظت نکالا، جن میں آٹھ زخمی اہلکار بھی شامل تھے۔”

سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر کئی اکاؤنٹس سے سوڈان حملے کی ویڈیو شئیر کی گئی اور مذکورہ بالا دعوے کو دہرایا گیا۔

تاہم بنگلادیش ملٹری کے ایکس اکاؤنٹ سے ان خبروں کی تردید سامنے آئی ہے اور پوسٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر زیر گردش دعوے درست نہیں ہیں۔

‘بی ڈی ملٹری اکاؤنٹ’ نے اپنی پوسٹ کے کیپشن میں لکھا کہ “سوڈان میں بنگلہ دیشی اقوامِ متحدہ کے امن دستوں پر ہونے والے خوفناک حملے کے بعد سوشل میڈیا پر بعض رپورٹس گردش کر رہی ہیں جن میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی کوئیک ری ایکشن فورس (کیو آر ایف) کو تعینات کیا گیا جنہوں نے 41 بنگلہ دیشی فوجیوں کو ریسکیو کیا اور حملہ آوروں سے مقابلہ کیا۔”

پوسٹ کے مطابق “یہ دعوے تاحال غیر مصدقہ ہیں اور نہ تو اقوامِ متحدہ کے کسی سرکاری بیان سے ان کی تصدیق ہوتی ہے اور نہ ہی بنگلہ دیش کے مستند دفاعی ذرائع نے ان کی توثیق کی ہے۔”

پوسٹ میں مزید کہا گیا کہ مزید کسی بھی پیش رفت کے لیے صرف اقوامِ متحدہ کے سرکاری بیان یا بنگلہ دیش آرمی کے مصدقہ بیانات پر انحصار کیا جانا چاہیے۔

واضح رہے کہ اس طرح کے آپریشنز پر بیانات پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) یا دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے جاتے ہیں۔ تاہم، اسٹوری کی اشاعت تک کوئی تردید یا تصدیق جاری نہیں کی گئی تھی۔

بنگلادیش میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان

بنگلادیش میں 12 فروری 2026 کو عام انتخابات اور جمہوری اصلاحاتی چارٹر پر ریفرنڈم بھی کرایا جائے گا
اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2025 07:59pm

بنگلادیش میں ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ہی دن قومی انتخابات اور چارٹر ریفرنڈم کرانے کا شیڈول جاری کردیا گیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کے مطابق 13ویں قومی انتخابات اور جمہوری اصلاحاتی ریفرنڈم کے لیے ووٹنگ 12 فروری 2026 کو ہوگی۔

بنگلادیشی میڈیا کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اے ایم ایم ناصر الدین نے الیکشن شیڈول کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ عام انتخابات اور چارٹر ریفرنڈم 12 فروری 2026 کو منعقد ہوں گے۔

شیڈول کے مطابق امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ 29 دسمبر مقرر کی گئی ہے جبکہ ان کی جانچ پڑتال 30 دسمبر سے 4 جنوری تک ہوگی۔ کاغذات واپس لینے کی آخری تاریخ 20 جنوری رکھی گئی ہے۔

بنگلادیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے اپنے بیان میں کہا کہ 13ویں قومی انتخابات بنگلادیش کو نئی سمت دینے کا تاریخی موقع ہوں گے اور ضروری ہے کہ یہ انتخابات شفاف اور سب کے لیے قابلِ قبول ہوں۔
بنگلادیش میں ریفرنڈم کا مقصد ملک کے جمہوری اور آئینی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات لانا ہے تاکہ مستقبل میں آمریت کے لوٹنے کے امکانات کو روکا جا سکے اور ایک جوابدہ جمہوری نظام قائم ہو سکے۔ 

یہ ریفرنڈم 2024 میں طلباء کے احتجاج کے نتیجے میں تیار کردہ ایک جامع جولائی چارٹر کی تجاویز پر عوام کی منظوری حاصل کرنے کے لیے کرایا جا رہا ہے۔


واضح رہے کہ جولائی 2024 میں ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کے بعد سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے استعفیٰ دے دیا تھا، جس کے بعد نوبل انعام یافتہ پروفیسر محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم کی گئی جس کا مقصد انتخابات اور جمہوری اصلاحات کو یقینی بنانا تھا۔

مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال؛ بنگلادیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو سزائے موت

چیف الیکشن کمشنر نے پولنگ کا وقت بڑھا کر صبح ساڑھے 7 بجے سے شام ساڑھے 4 بجے تک کرنے کا بھی اعلان کیا ہے، تاکہ شہری ایک ہی روز ووٹ اور ریفرنڈم دونوں میں حصہ لے سکیں۔

بیرونِ ملک مقیم شہریوں کے لیے ڈاک کے ذریعے ووٹ کی آن لائن رجسٹریشن جاری ہے، اور بدھ کی شام تک 2 لاکھ 97 ہزار افراد رجسٹر ہو چکے ہیں۔ ان کے بیلٹ پیپرز پر صرف امیدواروں کے انتخابی نشانات ہوں گے اور انہیں ووٹنگ ختم ہونے سے قبل متعلقہ ریٹرننگ افسران تک پہنچانا ضروری ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں 42 ہزار 761 پولنگ اسٹیشنز اور 2 لاکھ 44 ہزار 739 پولنگ بوتھس قائم کرنے کا منصوبہ بھی مکمل کرلیا ہے، جہاں 12 کروڑ 76 لاکھ سے زائد ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔

بنگلادیش میں اس سے قبل عام انتخابات 7 جنوری 2024 کو ہوئے تھے، جس میں شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ نے کامیابی حاصل کی تھی تاہم اس الیکشن میں نتائج اور ووٹر ٹرن آؤٹ پر ملکی اور عالمی سطح پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔

بنگلادیش کا بھارت سے شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ

بعد ازاں جولائی 2024 میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کی بحالی کے عدالتی فیصلے کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور حکومتی کریک ڈاؤن کے دوران تقریباً 1400 افراد ہلاک ہوئے، جس کے بعد 5 اگست 2024 کو شیخ حسینہ نے استعفیٰ دے دیا اور ملک چھوڑ کر بھارت فرار ہوگئیں۔

نومبر 2025 میں بنگلادیش کی عدالت نے شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں سزائے موت سنا رکھی ہے اور حکومت نے ان کی بھارت سے حوالگی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

یاد رہے کہ عبوری حکومت نے شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی تھی اور الیکشن کمیشن نے پارٹی کی رجسٹریشن بھی معطل کر دی تھی۔ موجودہ صورتحال میں سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کی جماعت بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور جماعت اسلامی کے درمیان مقابلہ متوقع ہے۔

پاکستان کے ساتھ بھارت کے بغیر علاقائی اتحاد ممکن ہے: بنگلہ دیش

محمد توحید حسین کا یہ بیان وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کے حالیہ بیان کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
شائع 11 دسمبر 2025 11:27am

بنگلہ دیش نے کہا ہے کہ اس کے لیے اسٹریٹجک طور پر ممکن ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کسی علاقائی اتحاد میں شامل ہو اور اس اتحاد میں بھارت شامل نہ ہو، جب کہ دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک جیسے نیپال یا بھوٹان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں۔

بنگلہ دیش کے سرکاری خبر رساں ادارے ‘بنگلہ دیش سنگ باد سنگستھا’ کے مطابق ملک کے مشیر خارجہ محمد توحید حسین کا یہ بیان وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کے حالیہ بیان کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش، چین اور پاکستان پر مشتمل ایک تین ملکی پیش رفت شروع ہو چکی ہے جو وقت کے ساتھ علاقائی اور غیر علاقائی ممالک تک پھیل سکتی ہے۔

محمد توحید حسین نے کہا کہ اسحاق ڈار نے کچھ کہا ہے اور شاید مستقبل میں اس میں کچھ پیش رفت بھی ہو سکتی ہے۔

بانی پی ٹی آئی پاکستان میں سری لنکا، بنگلہ دیش یا نیپال جیسا ماحول بنانا چاہتے ہیں: طلال چوہدری

واضح رہے کہ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے رواں سال اگست میں 13 سال بعد پہلی بار بنگلہ دیش کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران وزیراعظم شہباز شریف اور بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ محمد یونس کے درمیان بھی حالیہ مہینوں میں دو خوشگوار ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ گزشتہ سال اگست میں بنگلہ دیش میں عوامی تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں گرم جوشی دیکھنے میں آئی ہے، اور اس پس منظر میں یہ اسٹریٹجک بیان پیش کیا گیا ہے۔

بھارت کو نیا خوف، اپنی مشرقی سرحد فوجی قلعے میں کیوں بدل دی؟

22 کلومیٹر چوڑی ایک پٹی 'سلیگوری راہداری' بھارت کی سات شمال مشرقی ریاستوں کو باقی ملک سے جوڑتی ہے، دہلی کے لیے ہمیشہ سے دردِ سر رہی ہے۔
شائع 30 نومبر 2025 10:51am

بھارت نے پاکستان، چین اور بنگلہ دیش کے بڑھتے ہوئے تعاون کے نتیجے میں سامنے آنے والی پیشرفتوں کے بعد اپنے مشرقی سرحدی علاقے کو فوجی قلعے میں بدل دیا ہے۔ بھارت کو سب سے زیادہ پریشانی اس بات کی ہے کہ اس کے عین مشرقی بارڈر پر بنگلہ دیش اب اُس کے روایتی مخالفین، یعنی چین اور پاکستان، کے ساتھ کھل کر سفارتی اور عسکری تعلقات مضبوط کر رہا ہے۔

سلیگوری راہداری، جو صرف 22 کلومیٹر چوڑی ایک پٹی ہے اور بھارت کی سات شمال مشرقی ریاستوں کو باقی ملک سے جوڑتی ہے، دہلی کے لیے ہمیشہ سے دردِ سر رہی ہے۔ لیکن اب اس حساس علاقے کو بھارت نے عملی طور پر ایک فوجی قلعے میں بدل دیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق، بھارت اس علاقے میں تین نئے فوجی مراکز تیزی سے قائم کر رہا ہے، جن میں دھوبری کے قریب لچت بورفوکان ملٹری اسٹیشن، بہار کے کشن گنج میں فارورڈ بیس، اور مغربی بنگال کے چوپڑا میں نئی اسٹریٹیجک چوکی شامل ہے۔

یہ اڈے صرف عام چھاؤنیاں نہیں، بلکہ ایسے اسٹریٹیجک مراکز ہیں جہاں تیز ترین ردعمل دینے والی فورسز، انٹیلی جنس یونٹس اور پیرا اسپیشل فورسز تعینات کی جا رہی ہیں، تاکہ بھارت کے لیے “لائف لائن” سمجھی جانے والی یہ پٹی کسی بھی صورت میں خطرے میں نہ پڑے۔

بھارت کے خدشات میں اُس وقت شدت آئی جب بنگلہ دیش میں بھارت نواز حکومت کی جگہ بھارت مخالف عبوری حکومت نے لے لی، جس کی خارجہ پالیسی اب واضح طور پر چین اور پاکستان کے قریب سمجھی جا رہی ہے۔

AAJ News Whatsapp

بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ بنگلہ دیش چین سے 2.2 ارب ڈالر کے جے-10 سی فائٹر طیارے خریدنے کی تیاری کر رہا ہے، یہ وہی جے 10 سی ہیں جنہوں نے مئی جنگ میں بھارت کے رافیل سمیت سات طیارے مار گرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جبکہ ڈرون ٹیکنالوجی میں بھی بیجنگ بنگلہ دیش کی مدد کر رہا ہے۔

بھارتی میڈیا نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پاکستان نے بنگلہ دیش کو جدید کے ایف-17 تھنڈر بلاک سی طیاروں کی پیشکش کی ہے۔

آج نیوز ان دونوں دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کرسکا۔ تاہم، ان دعوؤں نے نئی دہلی میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق، نئی دہلی کا ماننا ہے کہ اگر بنگلہ دیش، چین اور پاکستان کے قریب ہوتا گیا تو اس کے لیے سلیگوری راہداری کو محفوظ رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ بھارت نے چوپڑا کے فوجی اڈے کو بنگلہ دیش کی سرحد سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر قائم کیا ہے، جہاں سے وہ نہ صرف بارڈر کی نگرانی کر سکتا ہے بلکہ بنگلہ دیش کی حدود کے اندر تک مؤثر نظر رکھ سکتا ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ بھارت نے اس پورے علاقے میں رافیل طیاروں، براہموس میزائلوں اور جدید فضائی دفاعی سسٹمز کی تنصیب بھی شروع کر دی ہے، جس سے اس کا دفاعی انداز “ردعمل” سے “غلبہ قائم رکھنے” کی پالیسی میں بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔

بھارت کا یہ جارحانہ عسکری رویہ واضح پیغام دیتا ہے کہ وہ خطے میں چین، پاکستان اور اب بنگلہ دیش کے بڑھتے ہوئے دفاعی اشتراک سے شدید خوفزدہ ہے، اور اپنی کمزوری سمجھی جانے والی سلیگوری راہداری کو اب مضبوط قلعے میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔

بھارت نے شیخ حسینہ کی حوالگی کی درخواست موصول ہونے کی تصدیق کردی

بھارت کے داخلی عدالتی اور قانونی طریقہ کار کے تحت درخواست کا جائزہ لے رہے ہیں، ترجمان رندھیر جیسوال
شائع 27 نومبر 2025 03:47pm

بھارت نے کہا ہے کہ اسے بنگلا دیش کی جانب سے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی حوالگی (ایکسٹرڈیشن) کی درخواست موصول ہوگئی ہے، جس پر بھارت میں قانونی طور پر غور جاری ہے۔ یہ درخواست حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد بھیجی گئی تھی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کی وزارتِ خارجہ نے بدھ کے روز تصدیق کی کہ بنگلا دیش نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی ملک بدری کی درخواست بھیجی ہے، اور اس درخواست پر بھارت کے اندرونی اور عدالتی قانونی عمل کے مطابق غور کیا جا رہا ہے۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا’ہاں، ہمیں درخواست مل گئی ہے، اور یہ درخواست ہمارے عدالتی اور اندرونی قانونی طریقۂ کار کے تحت جانچی جا رہی ہے۔ بھارت بنگلا دیش کے عوام کے بہترین مفاد، امن، جمہوریت اور استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔‘

AAJ News Whatsapp

بنگلا دیش نے یہ درخواست پہلی بار دسمبر میں بھیجی تھی اور دوبارہ اس ماہ بھی، جب بنگلا دیش کی انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے جولائی 2024 کے مظاہروں کے دوران مبینہ جرائمِ انسانیت کے الزامات پر شیخ حسینہ کو سزائے موت سنائی۔

اسی مقدمے میں حسینہ کے دو قریبی ساتھیوں کو بھی سزا سنائی گئی، سابق وزیرِ داخلہ اسد الزمان خان کمال کو سزائے موت، جبکہ سابق آئی جی چوہدری عبداللہ المامون کو، جو ریاست کے گواہ بن گئے تھے، پانچ سال قید کی سزا دی گئی۔

سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کا ردعمل

سابق وزیراعظم شیخ حسینہ نے فیصلے کو “بدنیتی پر مبنی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ٹربیونل غیر منتخب عبوری حکومت کے زیرِ اثر کام کر رہا ہے۔

انہوں نے بیان میں کہا ’عدالت کا مقصد انصاف نہیں بلکہ مجھے راستے سے ہٹانا اور عوامی لیگ کو کمزور کرنا ہے۔ بنگلا دیشی عوام اب ایسے ہتھکنڈوں سے بے وقوف نہیں بنیں گے۔‘

شیخ حسینہ کو مزید مقدمات میں 21 سال قید کی سزا سنا دی گئی

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹربیونل کا مقصد جولائی اور اگست 2025 کے واقعات کی حقیقت جانچنا نہیں بلکہ ’عبوری حکومت کی ناکامیوں سے توجہ ہٹانا‘ ہے۔

ڈھاکا کا موقف

بدھ کے روز بنگلا دیش نے کہا کہ بھارت نے اس سے قبل بھیجی گئی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا، تاہم موجودہ حالات کے باعث انہیں اب جواب کی امید ہے۔

شیخ حسینہ کے خلاف 5 سنگین الزامات کیا ہیں؟

خارجہ امور کے مشیر توحد حسین نے کہا ’ہم توقع نہیں رکھتے کہ بھارت ایک ہفتے میں جواب دے دے گا، مگر ہمیں امید ہے کہ جواب ضرور ملے گا۔‘

قانونی امور کے مشیر آصف نذرول نے بھی کہا کہ عبوری حکومت “مفرور مجرموں” کو واپس لانے کے لیے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ سے رجوع کرنے پر غور کر رہی ہے۔


بنگلہ دیش کو ایک لاکھ ٹن چاول کی ایکسپورٹ کے لیے سرکاری ٹینڈر جاری

ٹینڈر کے تحت علیحدہ سربمہر بولیاں طلب کی گئی ہیں اور بولیاں جمع کرانے کی آخری تاریخ 28 نومبر مقرر ہے۔
اپ ڈیٹ 25 نومبر 2025 01:52pm

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارت کے حوالے سے اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، پاکستان ٹریڈنگ کارپوریشن (پی ٹی سی) نے بنگلہ دیش کو چاول کی ایکسپورٹ کے لیے ایک لاکھ ٹن چاول خریدنے کا ٹینڈر جاری کیا ہے۔

پی ٹی سی نے بنگلہ دیش کو چاول برآمد کرنے کے لیے علیحدہ سربمہر بولیاں طلب کی ہیں اور بولیاں جمع کرانے کی آخری تاریخ 28 نومبر مقرر کی گئی ہے۔

برآمد ہونے والا چاول ایری-6 لمبے دانے والا سفید چاول ہوگا جو کراچی سے بنگلا دیش بھیجا جائے گا۔

ٹینڈر نوٹس کے مطابق بولیاں کم از کم 25 ہزار ٹن اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ ٹن کے لیے ہوں گی اور قیمت کی پیشکش 21 کاروباری دنوں تک قابلِ قبول رہیں گی۔

AAJ News Whatsapp

چاول شپمنٹ کے لیے 45 دن میں تیار کرنا لازمی ہوگا اور ٹینڈر میں شرط رکھی گئی ہے کہ چاول تازہ پاکستانی فصل سے ہو، انسانی استعمال کے قابل ہو اور اس میں کوئی ناگوار بو، پھپھوندی یا دیگر آلودگی نہ ہو۔

یہ اقدام پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے اور پاکستانی چاول کی عالمی مارکیٹ میں برآمدات بڑھانے کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان حکومتی سطح پر تعلقات میں بہتری آئی ہے۔خصوصاً سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی اگست 2024 میں برطرفی کے بعد دو طرفہ رابطوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

98 ٹینکوں کی اپگریڈیشن؛ پاکستان اور بنگلادیش میں دفاعی تعاون کا نیا آغاز

دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کے حوالے سے بھی پیشرف گزشتہ روز سامنے آئی۔ پاکستان کی سرکاری دفاعی صنعت ”ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا“ (ایچ آئی ٹی) کے اعلیٰ سطح وفد نے بنگلادیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان سے ڈھاکہ میں ملاقات کی۔ ملاقات میں دوطرفہ دفاعی تعاون بڑھانے کے مختلف پہلوؤں پر بات ہوئی۔

بنگلادیش آرمی کے مطابق یہ ملاقات خاص طور پر بنگلادیشی فوج کے چالیس ”ٹائپ 59“ اور اٹھاون ”ٹائپ 69“ ٹینکس کی اپ گریڈیشن کے منصوبے پر مرکوز رہی۔

بنگلادیش میں زلزلے کے شدید جھٹکے، شدت 5.7 ریکارڈ

زلزلے کے جھٹکے بنگلا دیش کے ساتھ بھارت میں بھی محسوس کیے گئے۔
اپ ڈیٹ 21 نومبر 2025 03:32pm

بنگلا دیش میں نرسنگدی شہر کے قریب زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، جس کی شدت 5.7 ریکارڈ کی گئی۔ جرمن ریسرچ سینٹر برائے جیوسائنسز (جی ایف زیڈ) کے مطابق زلزلے کا مرکز زمین کی سطح سے تقریباً 10 کلومیٹر گہرائی میں تھا۔


رائٹرز کے مطابق زلزلے کے جھٹکے دارالحکومت ڈھاکہ سمیت ملک کے مشرقی حصوں میں بھی محسوس کیے گئے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق نرسنگدی، دارالحکومت ڈھاکہ سے تقریباً 40 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔

پولیس کے مطابق زلزلے میں اب تک پانچ افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ زلزلے کے نتیجے میں متعدد عمارتیں بھی متاثر ہوئیں۔

زلزلے کے جھٹکے دارالحکومت ڈھاکہ اور بھارت کے مشرقی سرحدی علاقوں میں بھی محسوس کیے گئے۔

AAJ News Whatsapp


بنگلادیش کا بھارت سے شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ

ریسکیو حکام کے مطابق زخمیوں میں زیادہ تر وہ افراد شامل ہیں جن کے اوپر تعمیراتی مواد، اینٹیں اور سیمنٹ کے ٹکڑے گرے جس کی وجہ سے انہیں چوٹیں آئیں۔


مقامی حکام کا کہنا ہے کہ وہ زلزلے کے اثرات اور ممکنہ خطرات کی نگرانی کر رہے ہیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے فوری طور پر نمٹا جاسکے۔

بنگلہ دیش کی شیخ حسینہ کو حوالے کرنے کی درخواست، بھارتی قانون اجازت دے گا؟

ڈھاکہ کی وزارتِ خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ حسینہ اور اسدالزمان کو فوری طور پر بنگلہ دیش کے حوالے کیا جائے۔
شائع 19 نومبر 2025 10:36am

بنگلہ دیش کی معزول سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کو گزشتہ سال اگست میں طلبہ کی احتجاجی تحریک کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔ شیخ حسینہ کو یہ سزا ان کی غیر حاضری میں سنائی گئی، کیونکہ ان دنوں وہ بھارت میں پناہ گزین ہیں۔

حسینہ اس وقت بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں اور بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے فوری طور پر ان کی بھارت سے حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ حسینہ کے سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھارت میں ہیں۔

ڈھاکہ کی وزارتِ خارجہ نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ حسینہ اور اسدالزمان کو فوری طور پر بنگلہ دیش کے حوالے کیا جائے۔

بنگلہ دیشی وزارت خارجہ نے کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان موجود دو طرفہ حوالگی کے معاہدے کے تحت یہ ایک لازمی ذمہ داری ہے۔ علاوہ ازیں، کسی شخص کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جرم میں سزا یافتہ ہونے کے باوجود پناہ دینا ”غیر دوستانہ“ اور انصاف کی خلاف ورزی تصور کی جائے گی۔

شیخ حسینہ کو سزا کے خلاف اپیل کا موقع نہ دیے جانے کا امکان کیوں ہے؟

بھارت نے ڈھاکہ کی عدالت کے فیصلے کو نوٹ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بنگلہ دیش میں امن، جمہوریت اور استحکام کے پیشِ نظر تمام اسٹیک ہولڈرز سے تعمیری رابطہ قائم رکھے گا۔

بھارتی وزارتِ خارجہ نے حوالگی کے حوالے سے کسی واضح جواب سے گریز کیا اور صرف کہا کہ بھارت بنگلہ دیش کے عوام کے بہترین مفاد میں کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

شیخ حسینہ کو پانچ سنگین الزامات میں سزا سنائی گئی ہے، جن میں طلبہ مظاہرین کے خلاف ہیلی کاپٹر، ڈرونز اور ہتھیار استعمال کر تے ہوئے قتل و غارت گری کے احکامات دینا شامل ہیں۔ عدالت نے انہیں 5 اگست کے روز ڈھاکہ کے چندرخپل علاقے میں چھ مظاہرین کی ہلاکت کے جرم میں موت کی سزا سنائی۔

شیخ حسینہ نے الزامات کو “غیر منصفانہ اور سیاسی طور پر متعصب“ قرار دیا اور کہا کہ وہ اور اسدالزمان خان ”نقصان کو کم کرنے کے نیت سے عمل کر رہے تھے۔“

AAJ News Whatsapp

کیا بھارت حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرے گا؟

بھارتی قانون اور دو طرفہ معاہدہ شیخ حسینہ کی حوالگی کو مسترد کرنے کا اختیار دیتے ہیں، خاص طور پر اگر الزامات سیاسی یا غیر منصفانہ قرار دیے جائیں۔

2013 میں بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان حوالگی معاہدہ (ایکسٹراڈیشن ٹریٹی) طے پایا، جسے 2016 میں اپ ڈیٹ کیا گیا تاکہ مطلوب افراد کا تبادلہ آسان ہو۔ معاہدے کے تحت حوالگی کے لیے ”دوہری مجرمانہ ذمہ داری“ کی شرط ہے، یعنی جرم دونوں ممالک میں قابلِ سزا ہونا چاہیے۔

معاہدے کی دفعہ 8 کے تحت اگر ثابت ہو کہ حوالگی کا مطالبہ ”ناانصافی یا ظلم پر مبنی“ ہے، تو بھارت اسے مسترد کر سکتا ہے۔ اسی طرح، دفعہ 6 کے تحت سیاسی نوعیت کے جرائم کی بنیاد پر بھی حوالگی روکنے کی گنجائش ہے، تاہم قتل، اغوا، دہشت گردی جیسے سنگین جرائم سیاسی قرار نہیں دیے جا سکتے۔

بھارت کا ایکسٹرڈیشن ایکٹ 1962

بھارت کے اس قانون کے تحت حکومت کو اختیار ہے کہ حوالگی کا مطالبہ رد، مؤخر یا معطل کرسکے۔ خاص طور پر اگر یہ مطالبہ ”غیر سنجیدہ، نیک نیتی کے بنا یا سیاسی مقاصد کے لیے“ ہو۔ اس قانون کے تحت بھارت کسی بھی وقت کارروائی کو روک سکتا ہے یا متعلقہ شخص کو چھوڑ سکتا ہے۔

مذکورہ بالا قواعد اور قوانین کو دیکھا جائے تو بھارت شیخ حسینہ کی حوالگی کی درخواست مسترد کرنے کے تمام قانونی اختیارات رکھتا ہے، اور امکان کم ہے کہ نئی دہلی انہیں بنگلہ دیش کے حوالے کرے، کیونکہ الزامات سیاسی نوعیت یا انصاف کے لحاظ سے متنازع قرار دیے جا سکتے ہیں۔

شیخ حسینہ کو سزائے موت پر بنگلہ دیش میں ہنگامے، دیسی ساختہ بم حملے

فیصلے کے بعد ڈھاکا سمیت مختلف شہروں میں عوامی لیگ کے کارکنوں، طلبہ گروپوں اور پولیس کے درمیان شدید تصادم
اپ ڈیٹ 18 نومبر 2025 11:24am

سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد بنگلہ دیش ایک بار پھر شدید کشیدگی کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے معزول سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کو گزشتہ سال طلبہ تحریک کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم پر سزائے موت سنائی تو ملک بھر میں احتجاج بھڑک اٹھے۔ اس فیصلے کے بعد ڈھاکا سمیت مختلف شہروں میں عوامی لیگ کے کارکنوں، طلبہ گروپوں اور پولیس کے درمیان شدید تصادم دیکھنے میں آیا۔

بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق، ڈھاکا کی متعدد اہم شاہراہیں مظاہرین نے بند کر دیں۔ پولیس کی بھاری نفری پہلے ہی تعینات تھی، لیکن فیصلے کے بعد حالات قابو سے باہر ہوتے گئے۔ پولیس نے مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج، ساؤنڈ گرینیڈ اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس مظاہرین کا پیچھا کر رہی ہے جبکہ مختلف علاقوں میں دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔

ڈھاکا کا مشہور علاقہ دھان منڈی 32، جہاں بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان اور شیخ حسینہ کا آبائی گھر واقع ہے، سب سے زیادہ کشیدہ رہا۔ مظاہرین نے بلڈوزر کے ساتھ اس گھر کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی تاکہ اس پر حملہ کر سکیں، لیکن پولیس نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا۔

AAJ News Whatsapp

صورتحال اُس وقت مزید سنگین ہو گئی جب عوامی لیگ کے کارکنوں کی جھڑپیں جتیا چھاترا شکتی نامی طلبہ تنظیم کے کارکنوں سے شروع ہو گئیں۔ یہ تنظیم اس تحریک کے مرکزی کوآرڈی نیٹرز پر مشتمل ہے جس نے حسینہ حکومت کو گزشتہ سال اقتدار سے بےدخل کیا تھا۔

اسی دوران گوپال گنج کے علاقے کوٹالی پارا میں بدامنی بڑھ گئی۔ نامعلوم افراد نے اپازِلا پریشد پر رات 9 بجے اور تھانے پر 10:30 بجے دیسی ساختہ بم (کاک ٹیل) پھینکے۔ دھماکوں میں تھانے کے تین پولیس اہلکار ایرین نہار، عارف حسین اور نذرالاسلام زخمی ہوئے۔ اسپتال کے مطابق انہیں معمولی زخم آئے اور ابتدائی طبی امداد دے کر فارغ کر دیا گیا۔

ٹریبونل کے فیصلے میں 78 سالہ حسینہ کو تین سنگین الزامات میں مجرم قرار دیا گیا ہے، جن میں تشدد پر اکسانا، مظاہرین کو قتل کرنے کے احکامات دینا اور طلبہ احتجاج کے دوران ہونے والے مظالم کو نہ روکنا شامل ہیں۔

سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کو بھی سزائے موت سنائی گئی، جبکہ سابق پولیس سربراہ چوہدری عبداللہ المامون نے ریاستی گواہ بن کر جرم قبول کیا جس پر انہیں 5 سال قید کی سزا دی گئی۔ یہ فیصلہ آئندہ سال فروری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل ملکی سیاست کا نقشہ بدل سکتا ہے۔

شیخ حسینہ نے فیصلے کو ”جانبدار، سیاسی انتقام“ قرار دیا ہے۔ دوسری طرف عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے کہا کہ ”قانون سب کے لیے برابر ہے اور کوئی بھی طاقت قانون سے بالاتر نہیں۔“

فیصلے کے بعد بنگلہ دیش نے بھارت کو خط لکھ کر حسینہ اور ان کے ساتھی کمال کو واپس بھیجنے کا مطالبہ بھی کیا، جن پر طلبہ قتل عام میں کردار کا الزام ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ وہ صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے اور ”بنگلہ دیش کے عوام کے بہترین مفاد“ کے لیے ہر فریق سے رابطے میں رہے گی۔

بنگلادیش کا بھارت سے شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ

انسانیت مخالف جرائم میں سزا یافتہ مجرموں کو پناہ دینا 'غیر دوستانہ رویہ' تصور ہوگا، بنگلادیشی وزارتِ خارجہ
اپ ڈیٹ 17 نومبر 2025 07:12pm

بنگلہ دیش نے بین الاقوامی جرائم ٹریبونل کے فیصلے کے بعد بھارت سے سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ اور سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کی حوالگی کا مطالبہ کردیا۔

بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بین الاقوامی جرائم ٹریبونل کے فیصلے میں شیخ حسینہ اور اسد الزمان خان کمال کو ’انسانیت مخالف جرائم‘ میں قصوروار پاتے ہوئے سزا سنائی گئی ہے، اس لیے بھارت کو فوراً انہیں بنگلہ دیش کے حوالے کرنا چاہیے۔

بنگلہ دیشی اخبار دی ڈیلی اسٹار کے مطابق وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ انسانیت مخالف جرائم میں سزا یافتہ افراد کو پناہ دینا ’انتہائی غیر دوستانہ رویہ‘ تصور ہوگا اور اسے انصاف دشمنی کے مترادف سمجھا جائے گا۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ بھارت کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ دونوں کے ممالک کے درمیان طے شدہ معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے بھارت میں مقیم سابق بنگلادیشی وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی حوالگی یقینی بنائے۔

AAJ News Whatsapp

مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال؛ بنگلادیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو سزائے موت

بنگلادیشی وزارتِ خارجہ نے بھارت کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ شیخ حسینہ اور کمال کو فوراً بنگلہ دیش کی متعلقہ عدالتوں یا حکام کے حوالہ کرے تاکہ ان پر عائد الزامات کے مطابق مزید قانونی کارروائی یقینی بنائی جائے۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ اور سابق وزیرِ داخلہ اسد الزمان خان کمال کو انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر موت کی سزا سنائی ہے۔ عدالت نے دونوں کے اثاثے بھی ریاستی ملکیت میں لینے کا حکم دیا ہے۔

شیخ حسینہ: اقتدار کی بلندیوں سے سزائے موت تک

شیخ حسینہ کے خلاف زیر سماعت مقدمات کا فیصلہ بنگلادیش کی انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل کے 3 رکنی بینچ نے سنایا۔

ٹریبونل نے 453 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کو انسانیت کے خلاف جرائم کے پانچوں الزامات میں قصوروار ٹھہرایا، عدالت نے حکم دیا ہے کہ شیخ حسینہ تاحیات قید رہیں گی۔

خصوصی عدالت نے 453 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں شیخ حسینہ کو مظاہروں سے متعلق 2 الزامات کے تحت انہیں سزائے موت اور 3 الزامات کے تحت عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

ان کے خلاف لگائے گئے الزامات میں اشتعال انگیز تقاریر، مظاہروں کو دبانے کے لیے مہلک ہتھیاروں کے استعمال کا حکم، بیگم رُقیہ یونیورسٹی رنگپور کے طالب علم ابو سید کا قتل، ڈھاکا میں دائرنگ سے 6 مظاہرین کی ہلاکت اور آشو لیہ میں چھ افراد کو زندہ جلا کر مار دینا شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں قرار دیا گیا تھا کہ گزشتہ برس 15 جولائی سے 5 اگست کے درمیان حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے تقریباً 1400 افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے، جو 1971 کی آزادی کی جنگ کے بعد سے بنگلہ دیش میں سب سے بدترین سیاسی تشدد تھا۔

شیخ حسینہ: اقتدار کی بلندیوں سے سزائے موت تک

آج انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے فیصلہ دیتے ہوئے مظاہروں سے متعلقہ 2 الزامات کے تحت انہیں سزائے موت اور 3 الزامات کے تحت عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
شائع 17 نومبر 2025 06:00pm

بنگلہ دیش کی برطرف سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد جو کئی سالوں تک ملک میں اقتدار سنبھالے رہیں، کو پیر کے روز بنگلادیش کی خصوصی عدالت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مقدمے پر انہیں سزائے موت سنادی ہے۔

خود ان کی اپنی قائم کردہ خصوصی عدالت کے 3 رکنی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے فیصلہ دیتے ہوئے مظاہروں سے متعلقہ 2 الزامات کے تحت انہیں سزائے موت اور 3 الزامات کے تحت عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

شیخ حسینہ کو ڈھاکا میں قائم ایک ٹربیونل نے یہ قرار دیتے ہوئے قصوروار ٹھہرایا کہ انہوں نے گزشتہ برس ہونے والے طلبہ احتجاج کے خلاف سیکیورٹی فورسز کو مہلک طاقت کے استعمال کا حکم دیا تھا۔

اس دوران ملک میں طلبہ کی ایک تحریک نے زور پکڑا تھا جو ابتدا میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ نظام کے خلاف شروع ہوئی تھی لیکن بعد ازاں حکومت مخالف تحریک میں بدل گئی، جس میں کئی افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ یہ فیصلہ اُن کے استعفے اور بھارت میں فرار کے 15 ماہ بعد سنایا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں قرار دیا گیا تھا کہ گزشتہ برس 15 جولائی سے 5 اگست کے درمیان حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے تقریباً 1400 افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے، جو 1971 کی آزادی کی جنگ کے بعد سے بنگلہ دیش میں سب سے بدترین سیاسی تشدد تھا۔

ابتدائی سفر

شیخ حسینہ 1947 میں اُس وقت کے مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئی تھیں۔ ڈھاکا یونیورسٹی سے بنگالی ادب میں ڈگری حاصل کی اور اپنے والد اور ان کے طالب علم حامیوں کے درمیان رابطہ کار کے طور پر جلد سیاسی عمل میں شامل ہو گئیں۔

AAJ News Whatsapp

برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق شیخ حسینہ پہلی مرتبہ عالمی منظرنامے پر اُس وقت نمایاں ہوئیں جب 1975 کی فوجی بغاوت میں اُن کے والد بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن اور خاندان کے بیشتر افراد قتل کر دیے گئے تھے۔ اس وقت حسینہ واجد یورپ میں مقیم تھیں۔

ابتدائی دور میں وہ جمہوریت کے لیے تو سرگرم رہیں، مگر طویل اقتدار کے دوران اُن پر مخالفین کی گرفتاریوں، آزادی اظہار پر پابندیوں اور ریاستی جبر کے الزامات لگتے رہے۔

1975 کے بعد بھارت میں جلاوطنی کا عرصہ گزارنے کے بعد وہ 1981 میں واپس لوٹیں اور عوامی لیگ کی سربراہ منتخب ہوئیں۔ بعد میں انہوں نے اپنی بڑی سیاسی حریف خالدہ ضیا (بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ) کے ساتھ مل کر 1990 میں فوجی حکمران حسین محمد ارشاد کے خلاف جمہوری تحریک چلائی اور انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔

تاہم یہ اتحاد زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا، اور دونوں رہنماؤں کی تلخ سیاسی رقابت دہائیوں تک بنگلہ دیشی سیاست پر غالب رہی۔

شیخ حسینہ نے پہلی بار 1996 میں حکومت بنائی، پھر 2009 میں دوبارہ اقتدار میں آئیں اور 2023 تک مسلسل برسراقتدار رہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق 78 سالہ حسینہ کو اُن کے دورِ حکومت میں بنگلہ دیش کی معیشت خصوصاً ملک کی گارمنٹس انڈسٹری کو مضبوط بنانے کا کریڈٹ دیا جاتا رہا۔ انہیں میانمار سے آنے والے لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دینے پر عالمی سطح پر سراہا بھی گیا۔

تاہم احتجاجی تحریک کے سبب انہیں پانچویں بار اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔

بعد ازاں ناقدین نے الزام لگانا شروع کیا کہ شیخ حسینہ زیادہ آمرانہ طرزِ حکمرانی اپنانے لگی تھیں۔ مخالفین اور کارکنوں کی گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے متعدد واقعات رپورٹ ہونے لگے تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا تھا کہ ملک عملی طور پر ایک جماعتی نظام کی جانب بڑھ رہا ہے۔

معاشی دھچکے اور سیاسی تبدیلی

روس کے 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد درآمدی ایندھن اور غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے نے بنگلہ دیش کی ایک زمانے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کی رفتار کو اچانک سست کر دیا۔ اس اقتصادی دباؤ کے باعث بنگلہ دیش کو گزشتہ سال بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 4.7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی طرف رجوع کرنا پڑا۔

اگست 2023 میں جب حسینہ اپنی بہن کے ساتھ ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملک چھوڑ گئیں، تو مظاہرین نے پُرجوش انداز میں صدارتی محل پر دھاوا بول دیا اور قیمتی سامان باہر نکال کر لے گئے۔

اس کے بعد بنگلہ دیش کی باگ ڈور نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو دی گئی، جو طویل عرصے تک حسینہ کے سخت ناقد رہے۔

اب عوامی لیگ کو فروری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے سے بھی روک دیا گیا ہے۔

ان پر مظاہروں سے طاقت کے ذریعے نمٹنے اور مظاہرین کی ہلاکت سے متعلق مقدمات بنائے گئے۔ آج 3 رکنی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے انہیں 5 الزامات میں سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنادی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ حسینہ واجد کو ڈھاکا میں 6 مظاہرین اور اشولیا میں 6 طلبا کے قتل میں ملوث پایا گیا، ان جرائم پر انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔

شیخ حسینہ کے خلاف سزائے موت کا حالیہ فیصلہ نہ صرف ان کے سیاسی دور کے خاتمے کی علامت ہے بلکہ بنگلہ دیش کی مستقبل کی سیاست کے لیے بھی گہرا اثر رکھتا ہے۔

سزائے موت پر شیخ حسینہ کا شدت آمیز ردعمل

بھارت میں جلاوطنی کے دوران حسینہ نے فیصلے کو ”جانب دار اور سیاسی طور پر متعصب“ قرار دیتے ہوئے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ، ”میں اپنے خلاف الزامات کا سامنا ایک ایسے ٹربیونل میں کرنے سے نہیں گھبراتی جہاں شواہد منصفانہ طور پر پرکھے جائیں۔“

عدالت میں اُن کے سرکاری وکیل نے بھی مؤقف اپنایا کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔

مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال؛ بنگلادیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو سزائے موت

بنگلادیشی عدالت نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں قصوروار ٹھہرایا ہے
اپ ڈیٹ 17 نومبر 2025 02:58pm

بنگلادیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ استغاثہ (پراسیکیوشن) نے عدالت سے مطالبہ کیا تھاکہ شیخ حسینہ کو سزائے موت دی جائے، کیونکہ ان پر چودہ سو افراد کے قتل کا سنگین الزام ہے، جس پر آج عدالت نے شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت سمیت عمر قید اور تاحیات قید کی بھی سزائیں سنائی ہیں۔

بنگلہ دیش کی انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ اور سابق وزیرِ داخلہ اسد الزمان خان کمال کو انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر موت کی سزا سنا دی۔ عدالت نے دونوں کے اثاثے بھی ریاستی ملکیت میں لینے کا حکم دیا ہے۔

سابق آئی جی پولیس عبداللہ مامون کو مقدمے میں ریاستی گواہ بننے کے باعث پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ مامون نے عدالت میں جرم کا اعتراف کیا تھا اور وہ 2010 میں ٹریبونل کے قیام کے بعد پہلے ملزم ہیں جو ریاستی گواہ بنے۔

شیخ حسینہ کے خلاف زیر سماعت مقدمات کا فیصلہ بنگلادیش کی انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل کے 3 رکنی بینچ نے سنایا۔ ٹریبونل نے 453 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کو انسانیت کے خلاف جرائم کے پانچوں الزامات میں قصوروار ٹھہرایا، عدالت نے حکم دیا ہے کہ شیخ حسینہ تاحیات قید رہیں گی۔

عدالتی فیصلے کے مطابق شیخ حسینہ نےمظاہرین پر مہلک ہتھیاروں کا استعمال کرایا۔ شیخ حسینہ کو 6 افراد کو جلانے پر سزائے موت سنائی گئی ہے۔ عدالت نے بنگلادیش کے سابق وزیرداخلہ کو بھی سزائے موت کا حکم دیا ہے۔

شیخ حسینہ کو تین الزامات پر سزا سنائی گئی تھی جبکہ کمال اور مامون کو ڈرون، ہیلی کاپٹروں اور زندہ گولہ بارود کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنے اور اپنی کمان کے تحت فورسز کو روکنے میں ناکامی پر دو الزامات پر مجرم قرار دیا گیا تھا۔

یہ مقدمہ بنگلادیش کی خصوصی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل میں چلا اور آج اس مقدمے کا 450 صفحات پر مشتمل فیصلہ ملک بھر کے ٹی وی چینلز پر براہِ راست دکھایا گیا تاکہ عوام خود عدالتی کارروائی سے آگاہ رہ سکیں۔

انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے میں 80 سے زائد افراد نے گواہی دی، جن میں سے 54 افراد وہ ہیں جو پُرتشدد مظاہروں میں زندہ بچ گئے تھے، مقدمے میں دس ہزار صفحات پر مشتمل دستاویزات جمع کرائے گئے۔

شیخ حسینہ، جن کی عمر 78 سال ہے، گزشتہ سال ہوئے طلبہ کے مظاہروں پر سخت کریک ڈاؤن کے الزام میں انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے میں غیر حاضر رہ کر ٹرائل کا سامنا کر رہی تھیں۔ وہ کسی بھی الزام کو تسلیم نہیں کرتیں اور اگست 2024 میں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد سے بھارت میں مقیم ہیں۔

استغاثہ کے مطابق، شیخ حسینہ کے حکم پر اسدالزمان اور دیگر اعلیٰ حکام نے غیر مسلح طلبہ مظاہرین پر حملوں میں سہولت کاری کی۔ مقدمے میں کہا گیا کہ ان احتجاجی طلبہ کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھے، اس کے باوجود ان پر طاقت کا بے دریغ استعمال ہوا۔

فیصلے کے اعلان سے قبل پورے بنگلادیش میں سیکیورٹی کو ہائی الرٹ کیا گیا۔ عدالت کے باہر لوگ بڑی تعداد میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور پولیس نے جگہ جگہ ناکے لگائے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔

AAJ News Whatsapp

ڈھاکا میں دھماکے

اس تاریخی فیصلے سے ایک دن پہلے پورے ملک، خاص طور پر دارالحکومت ڈھاکا میں سخت کشیدگی پائی گئی۔ اتوار کے روز ڈھاکا کے مختلف علاقوں میں کئی دیسی ساختہ بم (کروڈ بم) دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔ خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان رپورٹ نہیں ہوا، مگر پہلے سے ہی تناؤ کا شکار شہر مزید خوفزدہ ہوگیا۔

ڈھاکا میٹروپولیٹن پولیس کمشنر نے افسران کو سخت ہدایات جاری کی ہیں کہ جو بھی شخص بم حملہ کرے، آگ لگانے کی کوشش کرے یا جان لیوا کارروائی میں ملوث ہو، اس پر براہِ راست فائرنگ کی جائے۔ یہ حکم اس بات کا ثبوت ہے کہ حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں۔

سیکیورٹی اداروں نے عدالتی فیصلے سے قبل ڈھاکا، خصوصاً گوپال گنج جو شیخ حسینہ کا آبائی علاقہ اور ان کی جماعت کا مضبوط گڑھ ہے، اور دو قریبی اضلاع میں سیکیورٹی مزید سخت اور بارڈر گارڈ بنگلادیش کے اہلکار بھی تعینات کیے ہیں۔ اہم سرکاری عمارتوں، چوراہوں اور مرکزی مقامات پر پولیس اور ریپڈ ایکشن بٹالین کے دستے تاحال موجود ہیں، جس کے باعث شہر کے کئی علاقے غیر معمولی طور پر سنسان دکھائی دے رہے ہیں۔

فیصلے سے پہلے کے چند دنوں میں ملک بھر میں 30 سے زیادہ کروڈ بم دھماکے ہو چکے ہیں، جب کہ ڈھاکا سمیت مختلف اضلاع میں درجنوں بسوں کو آگ لگائی گئی ہے۔ حکام کے مطابق گزشتہ کچھ دنوں میں عوامی لیگ کے کئی کارکنوں کو دھماکوں اور تخریب کاری میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

شیخ حسینہ کو سزا کے خلاف اپیل کا موقع نہ دیے جانے کا امکان کیوں ہے؟

مرکزی ملزمہ کو بطور خاتون کوئی قانونی مراعات حاصل ہوں گی؟
شائع 17 نومبر 2025 12:00pm

بنگلہ دیش میں سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے خلاف دائر انسانی حقوق کے مقدمے میں پراسیکیوٹر غازی منور نے واضح کیا ہے کہ اگر شیخ حسینہ اور اسدالزمان کو سزا دی گئی تو وہ اس کے خلاف اپیل نہیں کر سکتے کیونکہ وہ مفرور ہیں۔ غازی منور نے واضح کیا کہ ٹربیونل قانون کے مطابق اپیل کا حق صرف فیصلے کے 30 دن کے اندر موجود ہوتا ہے، اور اس کے لیے مجرم کو خود کو عدالت کے حوالے کرنا ضروری ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں گرفتار کر لیتے ہیں تو تب انہیں اپیل کا حق حاصل ہوگا۔

ایک صحافی نے پراسیکیوٹر غازی منور سے پوچھا کہ چونکہ مرکزی ملزمہ ایک خاتون ہیں، کیا انہیں قانونی مراعات حاصل ہوں گی؟ اس پر غازی منور نے بتایا کہ کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے تحت خواتین، بیمار، نابالغ لڑکے اور بچے ضمانت میں ترجیح حاصل کر سکتے ہیں، لیکن سزا سنائے جانے میں خواتین کے لیے کوئی علیحدہ مراعات نہیں ہیں۔ جرم کی سنگینی کے مطابق سزا دی جائے گی، اور اگر الزامات ثابت نہ ہوئے تو ملزمہ کو بری کر دیا جائے گا۔

’پرواہ نہیں، اللہ نے زندگی دی ہے وہی واپس لے گا‘: شیخ حسینہ کا فیصلے سے پہلے پیغام

AAJ News Whatsapp

صحافی نے شیخ حسینہ کے حالیہ انٹرویوز کے بارے میں بھی سوال کیا، جن میں انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے براہ راست قتل کے احکامات نہیں دیے۔

پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ شیخ حسینہ اپنی تمام باتیں صرف ٹربیونل میں حاضری کے دوران پیش کر سکتی ہیں۔ عدالت کے باہر دی گئی بیانات کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہوتی۔ عدالت میں ان کی آواز کی ریکارڈنگز چلائی گئی ہیں، جن میں وہ مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے احکامات دیتے ہوئے سنی گئی ہیں۔

1400 قتل: شیخ حسینہ کی سزائے موت پر فیصلہ آج سنایا جائے گا

غازی منور نے مزید کہا کہ شیخ حسینہ کے بھارت میں رہتے ہوئے میڈیا کو دیے گئے انٹرویوز پر پراسیکوشن کوئی قانونی اقدام نہیں کر رہی، یہ معاملہ حکومت اور سفارتی سطح پر دیکھنے کا ہے۔ پراسیکوشن ان کے بیانات کو عدالت میں نہیں لے رہی۔

’پرواہ نہیں، اللہ نے زندگی دی ہے وہی واپس لے گا‘: شیخ حسینہ کا فیصلے سے پہلے پیغام

شیخ حسینہ کے بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ محمد یونس پر سخت الزامات
اپ ڈیٹ 17 نومبر 2025 01:04pm

بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ نے انسانی حقوق کے خلاف مبینہ جرائم کے مقدمے کے فیصلے سے پہلے اپنے حامیوں کو پیغام دیا کہ ان پر لگائے گئے الزامات جھوٹے ہیں اور وہ ایسے فیصلوں کی پرواہ نہیں کرتیں۔

شیخ حسینہ نے ایک آڈیو پیغام میں کہا کہ محمد یونس کی زیر قیادت عبوری حکومت ان کی پارٹی کو ختم کرنا چاہتی ہے، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی لیگ عوام نے بنائی ہے، یہ کسی طاقت کے ناجائز قبضے سے نہیں بنائی گئی۔

78 سالہ شیخ حسینہ نے کہا کہ اُن کے حامیوں نے احتجاج کی کال پر فوری ردعمل دیا اور عوام نے ان پر اعتماد ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ اس کرپٹ اور دہشت گرد یونس اور اس کے معاونین کو بتائیں گے کہ بنگلہ دیش کو کیسے درست سمت میں لایا جا سکتا ہے، اور انصاف عوام خود کریں گے۔

شیخ حسینہ نے اپنے حامیوں سے کہا کہ پریشان نہ ہوں، وہ زندہ ہیں اور عوام کی بھلائی کے لیے کام جاری رکھیں گی۔

انہوں نے یونس پر طاقت سے قبضہ کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ بنگلہ دیش کا آئین منتخب نمائندوں کو زبردستی ہٹانے کو جرم قرار دیتا ہے، اور یونس نے یہی کیا ہے۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کو رد کرتے ہوئے حسینہ نے کہا کہ انہوں نے دس لاکھ روہنگیا پناہ گزینوں کو تحفظ دیا اور اب ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

AAJ News Whatsapp

انہوں نے کہا کہ یونس کی حکومت نے ایسے لوگوں کو معافی دی ہے جنہوں نے پولیس، عوامی لیگ کے کارکن، وکلا، صحافی اور ثقافتی شخصیات کو قتل کیا۔ اس معافی نے متاثرہ خاندانوں کے لیے انصاف کے دروازے بند کر دیے ہیں۔

شیخ حسینہ نے اپنے حامیوں کو یقین دلایا کہ عدالت کے فیصلے انہیں نہیں روک سکتے اور انہوں نے پارٹی کارکنوں سے کہا کہ صبر کریں، وقت کا معاملہ ہے، سب کچھ حساب میں آئے گا اور انشاء اللہ وہ انصاف واپس کریں گی۔

انہوں نے کہا کہ عوامی لیگ کی حکومت نے لوگوں کی زندگیوں کو بدلا، اور آج ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، آمدنی نہیں ہے، پیداوار نہیں ہے، صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور بینک لوٹنے کے لیے کھلے ہیں۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ بنگلہ دیش کو اس صورتحال سے آزاد کرنا ہے۔

شیخ حسینہ نے اپنے خطاب کا اختتام نعرے ”جے بانگلا، جے بانگلا، جے بنگلہ دیش“ کے ساتھ کیا۔

جنرل ساحر شمشاد کو ’گریٹر بنگلادیش‘ کا نقشہ ملنے پر بھارت میں طوفان برپا

بنگلادیش کے عبوری سربراہ محمد یونس کے پاکستان سے بڑھتی قربت پر نئی سفارتی ہلچل
اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2025 08:19pm

بنگلادیش کے عبوری سربراہ محمد یونس ایک بار پھر بھارت کے اعصاب پر سوار ہوگئے ہیں۔ اس بار انہوں نے پاکستانی اعلیٰ فوجی عہدیدار کو ایک ایسا نقشہ پیش کیا ہے جس سے بھارت میں ہلچل مچ گئی ہے۔ اس نقشے میں میں بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں بشمول آسام بنگلادیش کے حصے کے طور پر دکھائی گئی ہیں۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پاکستان کی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل ساحر شمشاد مرزا نے حال ہی میں ڈھاکا کا دورہ کیا۔ دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے دوران محمد یونس نے جنرل ساحر شمشاد مرزا کو اپنی تصنیف “آرٹ آف ٹرائمف” تحفے میں دی، جس کے سرورق پر یہی متنازع نقشہ نمایاں تھا۔ بعد ازاں بنگلادیش کے عبوری نے اس ملاقات کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں، جنہوں نے بھارت میں شدید اشتعال پیدا کر دیا۔

بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ “یہ نقشہ اُن انتہا پسند گروہوں کے نظریے سے میل کھاتا ہے جو ’گریٹر بنگلادیش‘ کے خواب کو حقیقت بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔’

تاہم بنگلادیشی عبوری حکومت کی جانب سے اس پر کوئی وضاحت جاری نہیں کی گئی، جبکہ نئی دہلی کی وزارتِ خارجہ بھی تاحال خاموش ہے۔

AAJ News Whatsapp

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یونس کے برسراقتدار آنے کے بعد بنگلادیش کی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ شیخ حسینہ کے بعد قائم ہونے والی عبوری حکومت نے نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے ساتھ بھی قربت بڑھائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے ہیں۔

یاد رہے کہ یونس اس سے پہلے بھی بھارت کے شمال مشرقی علاقوں کے بارے میں کچھ بیانات دے چکے ہیں، جنہوں نے بھارت کو غصہ دلایا تھا۔

رواں سال اپریل میں اپنے دورہ چین کے دوران انہوں نے بھارتی ریاستوں کو “زمین سے گھرا ہوا خطہ” قرار دیا اور کہا کہ بنگلادیش ہی اس خطے کا “واحد سمندری دروازہ” ہے۔ ان کے مطابق، چین کو چاہیے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پورے مشرقی خطے کی معیشت میں اپنا اثر و رسوخ بڑھائے۔

ان بیانات کے بعد بھارت نے نہ صرف شدید ردعمل دیا بلکہ بنگلادیشی سامان کی بھارتی راستے سے نیپال، بھوٹان اور میانمار تک ترسیل کا معاہدہ بھی منسوخ کر دیا تھا۔

صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب یونس کے قریبی ساتھی میجر جنرل (ر) فضل الرحمان نے یہ اشتعال انگیز بیان دیا کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو بنگلادیش کو چاہیے کہ وہ چین کے ساتھ مل کر بھارت کے شمال مشرقی علاقوں پر قبضہ کرے۔

اسی طرح یونس کے ایک اور حامی ناہیدالاسلام نے بھی “گریٹر بنگلادیش” کے تصور پر مشتمل نقشہ سوشل میڈیا پر جاری کیا تھا، جس میں مغربی بنگال، تریپورہ اور آسام کے کچھ حصے شامل تھے۔

ان تمام بیانات کے باوجود محمد یونس نے مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی ہے، جسے ماہرین بھارت مخالف حکمتِ عملی اور چین و پاکستان کے ساتھ بڑھتے سفارتی تعلقات کا اشارہ قرار دے رہے ہیں۔

خطے کے مبصرین کے مطابق یونس دراصل جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو ازسرِنو ترتیب دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جس سے بھارت شدید سفارتی دباؤ میں آ گیا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتی قربت کے اس نئے محور میں بنگلادیش کی شمولیت بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی بن سکتی ہے۔

بنگلادیش میں جماعتِ اسلامی اقتدار میں آئی تو خواتین کے ساتھ کیا ہوگا؟

'لوگ کہتے ہیں جماعتِ اسلامی خواتین کو قید کر دے گی، ہمارے پاس اتنے تالے ہی نہیں ہیں!'
شائع 26 اکتوبر 2025 10:17am

بنگلادیش جماعتِ اسلامی کے امیر شفیق الرحمان نے کہا ہے کہ اگر جماعتِ اسلامی اقتدار میں آتی ہے تو خواتین کے حقوق، عزت اور سلامتی مکمل طور پر محفوظ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت خواتین کو گھروں میں قید نہیں کرے گی بلکہ تعلیم، روزگار اور سماجی ترقی کے لیے مواقع فراہم کرے گی۔

شفیق الرحمان نے یہ بات امریکا کے شہر بفیلو (Buffalo) میں بنگلادیشی نژاد امریکی کمیونٹی کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیے گئے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

ان کا کہنا تھا کہ ”بہت سے لوگ خوفزدہ ہیں کہ اگر جماعتِ اسلامی برسرِاقتدار آئی تو خواتین کا کیا ہوگا؟ یا دوسرے مذاہب کے لوگوں کا کیا انجام ہوگا؟“

انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ”ہم اپنی ماؤں کو ماؤں کی طرح دیکھتے ہیں، اور بیٹیوں کو اس عزت سے نوازتے ہیں جو اسلام نے انہیں دی۔ عورتیں خاندان کی بنیاد ہیں، اور ہم انہیں اسی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورتیں کام نہیں کر سکتیں۔ جو خواتین تعلیم یافتہ ہیں یا جنہیں ضرورت ہے، وہ عزت اور تحفظ کے ساتھ ملک و معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گی۔“

شفیق الرحمان نے جذباتی انداز میں کہا، ”جب ایک باپ اپنی بیٹی کو دوسرے گھر دیتا ہے تو وہ دراصل اپنی پرورش کی ہوئی کلی کسی اور کے حوالے کرتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر شوہر اس لمحے کو یاد رکھے جب اس کے سسر نے آنکھوں میں آنسو لیے اسے اپنی بیٹی سونپی تھی۔ اگر مرد اس احساس کو زندگی بھر یاد رکھے تو وہ کبھی کسی عورت پر ظلم نہیں کرے گا۔“

AAJ News Whatsapp

انہوں نے کہا کہ ”لوگ کہتے ہیں جماعتِ اسلامی خواتین کو قید کر دے گی۔ ہم کہتے ہیں ہمارے پاس اتنے تالے ہی نہیں ہیں! ہم خواتین کو عزت، تعلیم اور تحفظ دیں گے۔“

جماعتِ اسلامی کے امیر نے مزید کہا کہ ان کی جماعت اقتدار میں آ کر معاشرتی انصاف، شفاف نظامِ عدل اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کام کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ”ہمارے ملک میں انصاف صرف نعرہ بن کر رہ گیا ہے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ قرآن کے دیے ہوئے انصاف کو عملی صورت میں نافذ کریں گے، چاہے مجرم صدر ہو یا وزیرِاعظم۔ قانون سب کے لیے برابر ہوگا۔“

انہوں نے کہا کہ ملک کی معیشت کو تباہ کرنے والے، لوٹ مار کرنے والے گروہ نے بنگلادیش کے بینکوں کو کھوکھلا کر دیا ہے، لیکن جماعتِ اسلامی ایمانداری اور دیانت داری سے معیشت کو بحال کرے گی۔ ”چاہے ہمیں برباد معیشت ملے، ہم اللہ کے فضل سے اسے دوبارہ مضبوط کریں گے۔“

شفیق الرحمان نے بیرونِ ملک مقیم بنگلادیشی شہریوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے ووٹ کے حق کے لیے آواز اٹھائیں۔ ”ہم چاہتے ہیں کہ بیرونِ ملک بنگلادیشی شہریوں کو بھی پارلیمنٹ میں نمائندگی ملے۔“

انہوں نے کہا کہ جماعتِ اسلامی کا مقصد نئی نسل کو ایسے تعلیم یافتہ نوجوان بنانا ہے جو ڈگری لینے سے پہلے ہی عملی زندگی کے لیے تیار ہوں۔ ”ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے محض نوکری کے منتظر نہ رہیں، بلکہ کاروبار یا ملک کی خدمت میں اپنا کردار ادا کریں۔“

دریں اثنا، جماعتِ اسلامی نے ملک بھر کے تمام انتخابی حلقوں میں اپنے امیدواروں کا انتخاب مکمل کر لیا ہے۔ جماعت کے مطابق 80 فیصد امیدوار نئے چہرے ہیں جنہوں نے پہلے کبھی الیکشن نہیں لڑا۔ مرکزی مجلسِ نامزدگی نے ان امیدواروں کو منظوری دے دی ہے اور وہ اپنے اپنے علاقوں میں انتخابی مہم شروع کر چکے ہیں۔

شفیق الرحمان نے آخر میں کہا، ”ہم اقتدار کے پیچھے نہیں دوڑ رہے، ہمارا مقصد عدل، شرافت اور دیانت پر مبنی معاشرہ قائم کرنا ہے۔ چاہے اقتدار ملے یا نہ ملے، ہمارا جہاد بدعنوانی کے خاتمے تک جاری رہے گا۔“