ایک حکایت، ایک سبق : تکبر کا انجام

شائع 10 اپريل 2018 11:34am

hikayat

حضرت سعدیؒ کہتے ہیں کہ بچپن میں انہیں عبادت کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنے والد محترم کے ساتھ ساری ساری رات جاگ کر قرآن مجید کی تلاوت اور نماز میں مشغول رہتے تھے۔

ایک دن والد محترم اور وہ حسب معمول عبادت میں مشغول تھے اور ان کےقریب ہی کچھ لوگ فرش پر پڑے غافل سورہے تھے۔ انہوں نے ان کی یہ حالت دیکھی تو اپنے والد صاحب سے کہا کہ ان لوگوں کی حالت پرافسوس ہے۔ ان سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ اٹھ کر تہجد کی نفلیں ہی ادا کرلیتے۔
والد محترم نے ان کی یہ بات سنی تو فرمایا بیٹا، دوسروں کو کم درجہ خیال کرنے اور ان کی برائی کرنے سے تو بہتر تھا تو بھی نماز پڑھ کر سوجاتا۔
حضرت سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے اس حکایت میں غرور اور تکبر کی خرابی بیان کی ہے۔ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس سے محتاط لوگ بھی کم ہی بچ پاتے ہیں۔ جب ایک شخص خود کو اطاعتِ حق میں مشغول پاتا ہے اور دوسروں کو اس طرف سے بے پرواہ پاتا ہے تو غیر محسوس طور پر اس کے دل میں یہ غرور پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ لوگ مجھ سے کم درجہ ہیں۔ اور میں مقربان بارگاہ میں سے ہوں۔ اگر ایسا شخص اپنی غلطی سے آگاہ ہو کر فوراً توبہ نہ کرے تو عذاب کا مستحق بن جاتا ہے۔ کیونکہ غرور کو مٹانا ہی عبادت کا اولین مقصد ہے۔