بے عیب ذات، ایک حکایت ایک سبق
حضرت شیخ سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک نوجوان بے حد حسین وجمیل تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ نیک اطوار کا بھی مالک تھا۔ وہ نوجوان علم کی دولت سے مالا مال تھا اور جس موضوع پر بھی گفتگو کرتا لوگ اس کی جانب متوجہ ہوجاتے اور نہایت انہماک سے اسے سنتے تھے۔ اس کے فیصلوں کی قدر کی جاتی تھی۔اور وہ ایسا روشن چراغ تھا جس کے سامنے کسی دوسرے چراغ کی روشنی ماند تھی۔
ان تمام خوبیوں کے باوجود اس میں ایک عیب ضرور تھا۔ وہ یہ کہ وہ شخص الفاظ کو ان کے صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کرنے کی قدرت نہ رکھتا تھا۔
ایک روز ایک بزرگ کی محفل میں اس نوجوان کا ذکر ہوا تو میں نے اس نوجوان کی اس کمزوری کا ذکر کیا۔ اپنی رائے دیتے ہوئے میں نے کہا کہ میرے نزدیک اس کی گفتگو میں یہ نقص اس لئے ہے کہ اس کے سامنے کے دانت صحیح نہیں ہیں۔
میری بات سننے کے بعد وہ بزرگ ناراض ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے حیرانگی ہوتی ہے کہ اتنی خوبیاں دیکھنے کے بعد بھی تم اس نوجوان کے ایک معمولی عیب پر نظر رکھے ہوئے ہو۔ کیا یہ افسوس کا مقام نہیں کہ طاؤس کو دیکھنے والے کی نظر اس کے بدصورت پیروں پر ہی مرکوز ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ انسان دوسروں کی ذات میں ہنر اور خوبیاں تلاش کرے اور عیب اپنی ذات میں دیکھے۔ یاد رکھو کہ دنیا میں اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی۔ جس طرح گلزار میں پھول بھی ہوتے ہیں اور خار بھی۔ جس کا دل میلا ہو اسے ہر چیز میلی نظر آتی ہے۔ جس کا دل روشن ہو اسے ہر چیز روشن نظر آتی ہے۔
شیخ سعدیؒ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ بے عیب ذات صرف اللہ عزوجل ہی کی ہے۔ پس دوسروں کی ذات میں عیب تلاش کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی ذات میں موجود عیبوں پر نگاہ دوڑائی جائے اور ان کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔