Aaj News

جمعہ, مارچ 29, 2024  
18 Ramadan 1445  

نازیبا القابات کی اصل حقیقت اور تاریخ

اپ ڈیٹ 25 ستمبر 2018 10:08am
Image result for karachi فائل فوٹو


کراچی اس ملک کا واحد شہر ہے جہاں آپ کو پورے پاکستان سے تعلق رکھنے والے مختلف زبانوں کے لوگ باآسانی مل جائیں گی۔  کراچی کے شہریوں کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں  کوئی زبان سیکھنے سے زیادہ اس زبان کے نازیبا القابات  یا  آسان الفاظ میں کہیں تو گالیوں  میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر ہمارا کوئی دوست کسی دوسری قومیت سے تعلق رکھتا ہے تو عام طور پر  ہماری پہلی ترجیح یہ ہی ہوتی ہے کہ  اس سے معلوم کریں کہ فلانی گالی کو تمہاری زبان میں کیا کہا جاتا ہے یا کس طرح استعمال کی جاتی ہے؟

پینڈو ، کھدڑا، بھنگی، اخروٹ ،چمار، یہ عام القابات آپ کو شہرِ قائد یعنی کراچی میں  ہر جگہ سننے کو ملیں گے۔ یہاں شاید ہی کوئی   ایسی ذی روح ہو جو ان الفاظ سے واقفیت نہ رکھتی ہو۔ ہم اس طرح کے الفاظ کسی کو نیچا دکھانے کیلئے یا  تفریح کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں جانتے کہ ان کے معنی کتنے سخت ہیں اور ان کی زبانی تاریخ کیا ہے۔

٭  کالا / کلّو

کسی بھی  گہری سیاہ  رنگت والے شخص کیلئے ان لفظوں  کا استعمال  صرف کراچی میں  ہی نہیں بلکہ پورے ملک یہاں تک کہ بھارت میں بھی عام ہے۔ ان الفاظ کا استعمال ہم کسی سانولی رنگت والے کو بے عزت کرنے یا نیچا  دکھانے کیلئے کرتے ہیں۔

لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ  کالا اور کلّو جیسے الفاظ نسل پرستی  جیسی سخت  فہرست میں شمار کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس موضوع پر ایک ڈرامہ بھی لکھا گیاجس میں اداکارہ ماریہ واسطی نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اگر کسی نے وہ ڈرامہ دیکھا ہے تو برائے مہربانی اس کے سامنے ان لفظوں کا استعمال نہ کریں، کیونکہ وہ اس کا صحیح مطلب جانتا ہے۔

٭ ڈھکن

یہ لفظ عموماً کند ذہن لوگوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے یا ایسے افراد  جن کا ردعمل تھوڑا سست ہو  'ڈھکن' شمار کئے جاتے ہیں۔ ڈھکن بدمعاش زبان کا  لفظ ہے اور ہمیں  صرف بدمعاش  اور بد معاشی ہی نہیں بلکہ  اس زبان سے ہی  دور رہنا چاہئے۔

٭ بھنگی/ چوڑا

ہندو مذہب کے سب سے نچلی ذات والے لوگوں  کو بھنگی یا چوڑا کہا جاتا تھا۔ تاہم اب یہ الفاظ  پاکستان میں صفائی  کرنے والے غیر مسلم افراد کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔  جنوبی ایشیا میں جب مشنری پادریوں نے عیسائیت کی تبلیغ شروع کی تو لاکھوں کی تعداد میں  نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں نے عیسائیت کو اپنایا،جنہیں  صفائی ستھرائی اور جھاڑو پونچھے کی نوکری دی گئی۔ جس پر انکی قوم کے دیگر لوگوں نے انہیں بھنگی یا چوڑا کہنا شروع کردیا۔  کسی شخص کو بھنگی کہنا انتہائی بُرا ہے،    جبکہ اس وقت ان الفاظوں  پر پابندی بھی لگائی گئی تھی۔

٭  چمار

چمار نچلی ذات کے ہندوؤں کے اس شخص کو کہتے  تھے جو چمڑے کا کام کرتا تھا۔  ایسے لوگوں کو ہتک نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

٭ میراثی/کنجر

میراثی عربی زبان کے لفظ میراث سے نکلا ہے ، جس کا مطلب وراثت ہے۔ ہمارے پاکستان خصوصاً پنجاب میں میراثی ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو پیشے کے اعتبار سے گانے بجانے والے ہوں۔ جبکہ ان میراثیوں کے ساتھ ناچنے والوں کو کنجر کہا جاتا تھا۔ جہاں ان لوگوں کو پاکستانی ثقافت میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے عزت دینی چاہئے ، آج ہم نے ان کے کام کو ایک گالی بنا دیا ہے۔

٭ کھدڑا

خواجہ سراؤں کے کئی نام ہیں، ہم انہیں ہجڑا، کھدڑا اور نہ جانے کتنے القابات سے پکارتے ہیں۔  اگر ہم کسی ایسے شخص کو  ہجڑا یا کھدڑا کہتے ہیں تو وہ اس کی مردانگی کیلئے ذلت کا باعث بنتا ہے۔ حالانکہ یہ  لفظ صرف ایک جنس کی نشاندہی کرتا ہے مگر پھر بھی  انتہائی بُرا اور زہریلا سمجھا جاتا ہے۔

٭  اخروٹ

عموماً پشتون کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں کو اخروٹ کہا جاتا  ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ ان میں دماغ نہیں  اخروٹ ہوتا ہے، لیکن شاید لوگ یہ نہیں جانتے کہ پشتون قوم ایک انتہائی ذہین اور  دلیر قو م ہے۔ اس لیے کسی  کو اخروٹ کہنے سے قبل اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔

٭  پینڈو

پنڈیا گاؤں سے تعلق رکھنے والوں کو 'پینڈو ' کہا جاتا تھا۔عام طور پر کسی کو  ان پڑھ ، جاہل اور غیر مہذب کہنا ہو تو اسے پینڈو کا لقب دے دیا جاتا ہے۔دیہی پنجاب  سے شروع ہونے والا یہ لفظ اب پورے پاکستان میں پہنچ چکا ہے۔ یہ سب سے زیادہ  عام تذلیلی لفظ ہے جو گاہے بگاہے استعمال ہوتا ہے۔

یہ چند الفاظ تھے جن کو ہم استعمال کرتے ہوئے بالکل بھی نہیں سوچتے،  ان کے سخت گیر معنوں سے بے خبر ہم بے دھڑک کہہ جاتے ہیں۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ کسی کا کام ، ثقافت، روایت اور رہن سہن   ہمارے لئے اتنا ہی قابل احترام ہے جتنا  ہمارا اپنا کام رہن سن اور ثقافت ہے۔ ہمیں ان الفاظ اور ان القابات کو اپنے  روز مرہ کے ذخیرہ الفاظ سے نکالنا ہوگا۔ ہمیں ان لفظوں پر مبنی  لغت کو دفنانا ہوگا۔ تبھی ہم مہذ ب اقوام میں شمار کئے جائیں گے۔

نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div