Aaj News

پیر, مئ 20, 2024  
11 Dhul-Qadah 1445  

حکومت میں ملک چلانے کی نہ صلاحیت ہےاورنہ ہی قابلیت،چیف جسٹس

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں سندھ میں لوڈشیڈنگ سے متعلق ازخود نوٹس...
شائع 01 ستمبر 2020 01:51pm

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں سندھ میں لوڈشیڈنگ سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر حکومت کی کے الیکٹرک پر رٹ نہیں تو پورے ملک پر بھی نہیں ،حکومت کےالیکٹرک کی کلرک اورمنشی بنی ہوئی ہے،حکومت میں ملک چلانے کی نہ صلاحیت ہےاورنہ ہی قابلیت۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے سندھ میں لوڈشیڈنگ کیخلاف ازخودنوٹس پرسماعت کی۔

سپریم کورٹ نے کے الیکٹرک اور سیکرٹری پاور ڈویژن کی رپورٹ پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاورڈویژن کی رپورٹ کےالیکٹرک سےپیسےلےکربنائی گئی،جس پاور ڈویژن افسر نے رپورٹ جمع کرائی اس کو پھانسی دے دینی چاہیئے،کیوں نہ جوائنٹ سیکرٹری کونوکری سےفارغ کردیں۔

جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا کہ ہم نے موجودہ صورتحال پررپورٹ مانگی تھی،انہوں نے مستقبل کا لکھ دیا،مسقبلر کوچھوڑدیں،ابھی کیا کررہےہیں اس کا بتایا جائے،پاور ڈویژن والوں کو کراچی لے جائیں ،کراچی جاکردیکھیں لوگ کیسے ان کو پتھر مارتے ہیں،کراچی جاکر ان لوگوں کا دماغ ٹھیک ہو جائے گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے کہا تھا کہ نیپرا اور دیگر ادارے کراچی میں لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کا حل نکال کر آئیں، کراچی میں بارشوں کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو چکی ہے،کے الیکٹرک والے اسٹے آرڈر لے کر 5سال تک بیٹھے رہتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ خواہ مخواہ کہا جاتا ہے کراچی ملکی معیشت کا 70 فیصد دیتا ہے، کراچی کے پاس دینے کیلئے اب کچھ نہیں،کراچی میں اربوں روپے جاری ہوتے ہیں لیکن خرچ کچھ نہیں ہوا، 4 سال میئر رہنے والے نے ایک نالی تک نہیں بنائی،لوکل گورنمنٹ والوں کو جتنے بھی پیسے ملے وہ تنخواہوں پر خرچ کئے گئے ہیں،آج بھی آدھا کراچی پانی اور اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کراچی میں کے ایم سی اور کنٹونمنٹ بورڈ ہے لیکن ان کے ملازم نظر نہیں آرہے، شہر کی دیکھ بھال کا ذمہ حکومت کا ہے لیکن ہمیں علم ہے کہ کراچی کے کرتے دھرتے کچھ نہیں کریں گے،وہ تومنہ سے نوالہ بھی چھین لیتے ہیں،پہلے ہی اربوں روپے بیرون ملک جاچکے ہیں، کراچی میں مال بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے، کراچی والوں کے بیرون ملک اکاونٹ فعال ہوچکے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کے الیکٹرک عوام کو بجلی اور حکومت کو پیسے نہیں دیتی، 2015 سے کے الیکٹرک نے ایک روپیہ حکومت کو نہیں دیا،حکومت میں ملک چلانے کی نہ صلاحیت ہے اور نہ ہی قابلیت، حکومت کو بے بس کیا جارہا ہے کیونکہ اس کے پاس اہلیت نہیں،حکومت کےالیکٹرک کی کلرک اورمنشی بنی ہوئی ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے مزیدریمارکس دیئے کہ کےالیکٹرک نے 2015 سے رقم جمع نہیں کرائی،آپ لوگ کے الیکٹرک کے ترلے کررہے ہیں،کےالیکٹرک پروفاق کی رٹ نہیں توپورےملک میں ان کی رٹ نہیں، وفاقی حکومت بالکل بے بس ہے، وفاقی حکومت کیا کررہی ہے؟ اس کی آخر رٹ کہاں ہے، حکومت میں ملک چلانے کی صلاحیت ہےاورنہ ہی قابلیت۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ کراچی میں حکومت بے بس نظر آرہی ہے، کراچی کے شہری اس وقت کے الیکٹرک کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں، کے الیکٹرک والے کراچی شہر کے ساتھ بہت برا کررہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کے الیکٹرک کے پاس پیداواری صلاحیت نہیں تو پھر بجلی پیداوار کا خصوصی اختیار ختم ہو جاتا ہے، پاور ڈویژن کا جواب واپس لیتا ہوں نیا جواب جمع کرائیں گے۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ پاور سیکٹر کے پاس کام کرنے کا دم نہیں، ملک میں پیٹرول کا بڑا اسکینڈل آیا ،ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر آگئی، دس روز تک ملک مکمل بند رہا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیٹرول کے معاملے پر کمیشن بنایا ہے، جواب میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کمیشن کا کیا فائدہ جس نے کام کرنا تھا وہ کر گیا۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت عوام کے فائدے کیلئے حکومت کے پاس کچھ نہیں ہے، اداروں کی آپس میں کوئی ہم آہنگی نہیں، تمام حکومتی ادارے کے الیکٹرک کی معاونت کلئےی ہیں، اس بار بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے، پاور ڈویژن کی رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے۔

سپریم کورٹ نے نیپرا قانون کے سیکشن 26 پر عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ قانون کے تحت نیپرا کو عوامی سماعت کرکے فیصلے کا اختیار ہے، نیپرا قانون کے مطابق کے الیکٹرک کے کراچی میں بجلی سپلائی کے خصوصی اختیار کا فیصلہ کرے،10 دن میں نیپرا ٹربیونل کے ممبران تعینات کئے جائیں اور سیکشن 26 کے اختیار کے استعمال پر کوئی عدالت حکم امتناع نہیں دے سکے گی۔

سپریم کورٹ نے کے الیکٹرک کخلا ف نیپرا اقدامات پر جاری شدہ حکم امتناع بھی خارج کر دیئے۔