Aaj News

جمعہ, اپريل 26, 2024  
17 Shawwal 1445  

سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ 22ستمبر تک مؤخر

کراچی کی انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے سانحہ بلدیہ فيکٹری کیس...
اپ ڈیٹ 17 ستمبر 2020 03:04pm

کراچی کی انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے سانحہ بلدیہ فيکٹری کیس کا فيصلہ 22ستمبر تک مؤخر کردیا۔

انسداددہشتگردی عدالت کراچی (اے ٹی ڈی )میں سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی سماعت ہوئی،رحمان بھولا اور زبیر چریا کو جیل سے عدالت میں پیش کیا گیا۔

عدالت میں ملزمان علی حسن قادری، ادیب اور ڈاکٹر عبد الستار کی جانب سے فیصلہ مؤخر کرنے کی استدعا کی گئی،اس موقع پر ایم کیو ایم کے رہنما رؤف صدیقی، رینجرز پراسیکیوٹر اورملزمان کے وکلا ءبھی عدالت میں موجود تھے۔

بلدیہ فیکٹری کیس میں حماد صدیقی اور علی حسن قادری اشتہاری ہیں ،اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے ،غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند کردیاگیا تھا۔

ملزمان کے وکلاء کا مؤقف تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم پرشہداء کے ورثا کوجرمانہ دیا جاچکا ہے، دی جانے والی رقم دیت کی نہیں تھی معاوضے کی تھی، عدالت چاہے تو ملزمان پر جرمانہ عائد کرسکتی ہے ۔

عدالت نے استفسارکیا کہ کیا عدالت لواحقین کیلئے ملزمان پر جرمانہ عائد کرسکتی ہے ؟؟جس پر رینجرزکے پراسیکیوٹرنے عدالت کوبتایا جوڈیشل کمیشن نے متاثرین کو معاوضہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دیا گیا تھا،اے ٹی سی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پرعمل درآمد کی پابند نہیں ہے۔

سینٹرل جیل کراچی میں قائم انسداد دہشتگردی کی عدالت نے سانحہ بلدیہ کیس کی سماعت میں 2ستمبر کو فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے آج سنایا جانا تھا ۔

عدالت نےکراچی میں سانحہ بلدیہ فيکٹری کیس کا فيصلہ مؤخر کردیا،کیس کا فیصلہ اب 22ستمبر کو سنایا جائے گا۔

واضح رہے کہ 2012 میں بلدیہ کی گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگا کر 259افراد کو زندہ جلا دیا گیا تھا،آگ تیزی سے پھیل چکی تھی،ہر طرف چیخ وپکار آہ بکا لیکن مسلسل رابطے کے باوجود فائر بریگیڈ نہیں پہنچی، فیکٹری ملازم جنید نے خود ہی دوڑ لگائی،فائربریگیڈ لے تو آیا مگر ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکاتھااور250انسان جل کرخاک ہوچکے تھے۔

بھتہ نہ دینے کی اِتنی بڑی سزا کہ 259زندگورں کا خاتمہ ستم بالائےستم یہ کہ ایم کویایم کارکنوں نے فیکٹری مالکان کومزدوروں کی نمازجنازہ سے دھکے دے کرنکال دیا۔

ارشد بھائلہ نے 19ستمبر 2019کو ویڈیو لنک کے ذریعے بہت سے رازوں سے پردہ اُٹھایا،انکشاف کیا گیا کہ ملازم زبیرچریا نے فیکٹری میں ایم کیو ایم کا اثرورسوخ بڑھادیا تھا۔

پوری فیکٹری ایم کیو ایم کارکنوں کے کنٹرول میں آچکی تھی ،بلدیہ سیکٹر کی مالی سپورٹ کیلئے فیکٹری سے لاکھوں مالیت کا ویسٹیج فریال بیگ نامی شخص لےجاتا تھا، ماہانہ لاکھوں روپے بھتہ جانے لگا۔

لالچ بڑھتی گئی اور پھر جون 2012 میں سکٹر انچارج ماجد بیگ نے کروڑوں روپے بھتے کا مطالبہ کردیا، یہیں سے بات بگڑی، عبدالرحمان بھولا سمیت ایم کیو ایم تنظی کمیٹی کے انچارج حماد صدیقی کےنام بھی سامنےآئے ۔

حد تو یہ تھی کہ متاثرین کو چھ کروڑ کے لگ بھگ معاوضے کی رقم تک ہڑپ لی گئی، سی پی ایل سی کے سابق سربراہ احمد چنائے کے ذریعے گورنر ہاؤس سے پیغام بھیجا گیا کہ ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے متاثرین کومعاوضہ دیاجائے تو معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔

فیکٹری مالکان پر مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہا کہ بھتےکاذکرنہ کاٹ جائے، دھمکیاں بھی دی گئیں اور بالآخر مالکان کو جان بچانے کلئے ملک چھوڑ کر جاناپڑا۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پرعدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر8 سال بعد ملزمان کیخلاف سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div