Aaj News

جمعہ, اپريل 26, 2024  
17 Shawwal 1445  

'ججز بول نہیں سکتے،ان کا کوئی پی آر او بھی نہیں ہوتا'

جسٹس عمرعطابندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ہم کہتے ہیں...
شائع 07 دسمبر 2021 08:27pm

جسٹس عمرعطابندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ہم کہتے ہیں ہمارے فیصلوں کو جتنا چاہیں تنقید کا نشانہ بنائیں ۔ فیصلوں کے پیچھے جا کر ججز پر الزامات نا لگائیں۔ ججز بول نہیں سکتے،ان کا کوئی پی آر او بھی نہیں ہوتا ہے ۔سپریم کورٹ میں شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس وکیل حامد خان نے شوکت عزیزصدیقی کیخلاف ریفرنسز کی تفصیل پیش کردی۔

سپریم کورٹ میں شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی ۔

سماعت میں جسٹس عمرعطابندیال نے شوکت صدیقی کے وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا آپ جس فیصلے کے ساتھ تعلق جوڑ رہے ہیں ان پر سپریم جوڈیشل کونسل نے دو نوٹس جاری کیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم کہتے ہیں ہمارے فیصلوں کو جتنا چاہیں تنقید کا نشانہ بنائیں ۔ فیصلوں کے پیچھے جا کر ججز پر الزامات نا لگائیں۔ ججز بول نہیں سکتے،ان کا کوئی پی آر او بھی نہیں ہوتا ہے ۔

سماعت میں وکیل حامد خان نے کہا پہلے ریفرنس میں سرکاری رہائش پر حد سے زیادہ اخراجات کا الزام لگایا گیا. 31 جولائی کو تقریر والے معاملہ پر شوکازنوٹس جاری کر دیا گیا ۔ فیض آباد دھرنے کیس کے حکمناموں پر موکل کیخلاف دو ریفرنس دائر ہوئے. یہ وہ تمام کڑیاں ہے جوریکارڈ پرلانی ہیں ۔ شوکت صدیقی نے ٹی ایل پی کیساتھ معائدہ پر جنرل کے دستخط پر وفاقی حکومت سے جواب طلب کیا۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا آپ نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے میں لکھا کہ تحریک لبیک بھی مدعی تھی. فیض آباد دھرنا کیس میں 27 نومبر 2017کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے۔

وکیل حامد خان نے کہا اس معاہدے کے حوالے سے شوکت صدیقی نے دو نکات اٹھائے. معاہدے پر جنرل فیض کے دستخط بھی تھے. جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا شوکت صدیقی نے حاضر سروس افسران پر آبزرویشنز بغیر نوٹس کے دیں۔ کس طرح فاضل جج نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا؟

جسٹس سردار طارق نے کہا جب آرمی اور اس کے حاضر سروس افسران کے خلاف شکایت نہیں تھی تو کیا جج نے ازخود نوٹس لیا؟ کیا ہائیکورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار تھا؟ جس حاضر سروس افسر کے بارے میں کہا کہ غیر قانونی عمل کیا پھر وہی افسر آپ کے گھر میں بیٹھا تھا کیوں؟پھر آپ کہتے ہیں کہ وہ افسر آپ کے گھر آیا اور اثر انداز ہونے کی کوشش کی ۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا شوکت صدیقی نے تقریرعدلیہ کے خلاف کی، فوج کے خلاف کرتے تو پتا چل جاتا ان کا کتنا زورہے۔ آپ کے موکل نے تقریرمیں حدود سے تجاوز کیا۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا تقریر کرنے پر شوکاز آیا، تقریر نا ہوتی تو شوکاز نوٹس نا ہوتا ۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا جج کا کام نہیں کہ اداروں یا حکومت کی تحقیر شروع کردے ۔ سپریم کورٹ کا جج ملک کی خارجہ پالیسی پر تقریر نہیں کر سکتا ۔ بطور جج ایسی تقاریر کرنا ہمارا کام نہیں ۔

سماعت میں وکیل حامد خان نے کہا آئین کسی جج کو نکالنے سے پہلے انکوائری لازم قرار دیتا ہے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت الزامات کی انکوائری ضروری ہے. کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی گئی ۔

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div