بلوچستان :5 سالہ دلہن بازیاب، وفاقی شرعی عدالت نے ازخود نوٹس لےلیا

ایسا واقعہ ہماری شریعت کے سخت خلاف ہے،عدالت
شائع 01 نومبر 2022 01:42pm
علامتی تصویر بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز
علامتی تصویر بشکریہ: فرائیڈے ٹائمز

وفاقی شرعی عدالت نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے بلوچستان میں 5 سالہ بچی سے جبری شادی کرنے کے واقعہ پرکی جانے والی کارروائی سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ایسا واقعہ ہماری شریعت کے سخت خلاف ہے.

وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس سید محمد انور نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی ، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت میں پیش ہوکربتایا کہ واقعہ میں ملوث 2 ملزمان کو گرفتارکرتے ہوئے بچی کوبازیاب کروا لیا گیا ہے۔ نکاح خواں کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں ۔

چیف جسٹس سید محمد انور نے بلوچستان حکومت سے واقعہ میں ملوث افراد کیخلاف کارروائی کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

چیف جسٹس شریعت کورٹ نے بچوں کی شادی کو غیر اسلامی اور آئین کی خلاف ورزی قرار دیا تھا ۔

پانچ سالہ بچی کی جبری شادی کا واقعہ بلوچستان کے علاقہ خضدار میں رپورٹ ہوا تھا۔

واقعے کی ایف آئی آر صدر پولیس اسٹیشن میں چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کی شقوں کے علاوہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 420، 342 اور 34 کے تحت درج کروائی گئی ہے۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے مہرعلی سمیت 2 افراد کوگرفتار کرکے بچی والدین کے حوالے کردی ہے۔

نکاح خواں کی تاحال گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

پولیس حکام کے مطابق 5 سالہ بچی کا نکاح 12 سے 13 سال کی عمرکے لڑکےکے ساتھ پڑھایا گیا تھا۔

بچی کے بھائی فدا حسین کا کہنا ہے کہ ہم نے بچی کے سسر کو کہا کہ جب وہ بالغ ہوگی تو شادی کروائیں گے لیکن سسر نے نہ صرف زبردستی نکاح پڑھوایا بلکہ بچی کواپنے گھرمیں روک لیا۔

پس منظر

وٹہ سٹہ کے اس واقعے میں ملوث دونوں فریقین کا تعلق ضلع خضدار سے ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق تحصیل زہری سے تعلق رکھنے والے محمد میراجی مینگل نے اپنے بیٹے فدا حسین کا رشتہ رہائشی مہرعلی میراجی کی بیٹی سے طے کیا اور بدلے میں اس کی بیٹی کا رشتہ مہرعلی کے بیٹے سمیع اللہ سے طے پایا۔

محمد میراجی کا بیٹے فدا حسین اوراس کی منگیتربالغ ہیں لیکن مہرعلی 12، 13 سال کا اوراس کی منگیتر5 سال کی ہے۔فدا حسین کی شادی 24 اکتوبرکو طے ہائی اور بارات کٹھان پہنچنے پرنکاح سے پہلے مہرعلی نے شرط رکھ دی۔

کمسن بچی کے والد محمد میراجی کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر کے مطابق وہ بارات لے کر کٹھان پہنچے اورجب رات آٹھ بجے نکاح کی رسم شروع ہوئی تو مہرعلی نے پہلے اپنے بیٹے سمیع اللہ کا نکاح میری بیٹی سے پڑھوانے کی ضد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہ کرنے کی صورت شادی نہیں ہوگی۔

کم سن بچی کے والد کے مطابق ہم نے کافی منت سماجت کی کہ بچی بہت چھوٹی ہے لیکن مہرعلی اپنی ضد پر قائم رہے۔ حافظ محمد خدرانی کے ذریعے پہلے میری کمسن بیٹی کا نکاح اپنے بیٹے کے ساتھ پڑھوایا اور اس کے بعد میرے بیٹے کا نکاح اپنی بیٹی کے ساتھ کروایا۔

محمد میراجی نکاح کے بعد وہ بیٹی کو گھرزہری لے جانا چاہتے تھے مگر ایف آئی آر کے مندرجات کے مطابق اس کے سُسر مہرعلی نے بچی کو جانے نہیں دیا اور اپنے ساتھی شکرعلی جتک کے ساتھ مل کر بچی کو زبردستی روکا۔