فوج کی حمایت یافتہ جماعتوں کو شکست، نوجوانوں کی پارٹی جیت گئی
تھائی لینڈ کے انتخابات میں شاہی اور فوجی اشرافیہ کی مضبوط طاقت کو کم کرنے کے لیے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لینے والی اصلاح پسند حزب اختلف ’موو فارورڈ پارٹی‘ نے بظاہرمیدان مارلیا ہے۔
تقریبا تمام ووٹوں کی گنتی کے بعد پروگریسو موو فارورڈ پارٹی (ایم ایف پی) اور فیو تھائی پارٹی کو 500 میں سے 286 نشستیں ملنے کا امکان ظاہرکیا گیا ہے۔
الجزیرہ میں شائع رپورٹ کے مطابق سیاسی مبصرین نے نتائج کو موو فارورڈ پارٹی کے لیے متاثر کن فتح قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ “یہ تھائی لینڈ کے لئے ایک بڑا موڑ ہے کیونکہ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ ملک میں زیادہ ترلوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔ ہم رائے دہندگان کی طاقت دیکھ رہے ہیں، جنہوں نے اس بارتبدیلی کے لئے سخت جدوجہد کی۔
گزشتہ روز ووٹنگ والے روز دن تھائی لینڈ کے نوجوان اور بوڑھے لوگ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے جمع ہوئے اور بیشتر نے تبدیلی کی خواہش کا اظہار کیا۔ دارالحکومت بنکاک میں رائے دہندگان نے شدید گرمی کا سامنا کرتے ہوئے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور دوپہر تک متعدد پولنگ اسٹیشنوں کے حکام کا کہنا تھا کہ اہل افراد میں سے نصف سے زیادہ نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔
ملک بھر میں ووٹنگ کا عمل آسانی سے جاری رہا اور شمالی شہر چیانگ مائی، مشرقی تفریحی شہر پٹایا اور مغربی سیاحتی جزیرے پھوکیٹ میں دن کے آغاز میں لمبی اور منظم قطاریں دیکھی گئیں۔ان سبھی میں ایم ایف پی نے کامیابی حاصل کی جو بنکاک میں وہ دارالحکومت کے 33 حلقوں میں سے ایک کو چھوڑ کر باقی تمام حلقوں میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے تیار ہے۔

دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا اور طویل عرصے سے فیو تھائی کا مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے صوبہ چیانگ مائی میں پارٹی 10 میں سے 7 نشستیں جیتے گی۔ پٹایا میں 10 میں سے 7 نشستوں پر کامیابی کا امکان ہے جبکہ فوکیت میں اس نے تینوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر 99 فیصد ابتدائی نتائج شائع ہونے کے بعد ایم ایف پی کل 147 نشستوں کے ساتھ ایوان زیریں میں سب سے بڑا حصہ لینے کے لیے تیار دکھائی دے رہی ہے۔ ان میں براہ راست منتخب ہونے والی 400 نشستوں میں سے 112 اور متناسب بنیادوں پر جماعتوں کو مختص 100 نشستوں میں سے 35 شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں نے ایم ایف پی کے نتائج کو ”شاندار“ قرار دیا ہے کیونکہ قبل از انتخابات سروے میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ ارب پتی شناوترا خاندان سے تعلق رکھنے والی فیو تھائی جماعت ہی کامیابی حاصل کرے گی جس نے 2001 کے بعد سے ہر انتخاب جیتا ہے۔ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ فیو تھائی کے پاس کل 138 نشستیں تھیں۔
وزیر اعظم پریوتھ چن اوچا کی یونائیٹڈ تھائی نیشن پارٹی، جس نے پہلی بار 2014 میں بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، 36 نشستوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔ ان کی سابقہ پارٹی پالنگ پرچرتھ تقریبا 40 نشستوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر تھی۔
تیسرے نمبر پر بھومجیتائی تھے، جنہوں نے تھائی لینڈ میں چرس کو قانونی حیثیت دینے کی مہم کی قیادت کی۔ موجودہ حکمراں اتحاد میں شامل اس جماعت کو تقریبا 70 نشستیں ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔
اتوار کی شام جیسے ہی نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوا ، ایم ایف پی کی انتخابی مہم کے ہیڈ کوارٹرمیں انتہائی جوش وخروش دیکھا گیا کیونکہ یہ کامیابی ان کی توقعات سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
پارٹی لیڈر پیٹا لیمجارو نے ”سنسنی خیز نتائج“ پر حامیوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے پیر کی صبح ٹوئٹر پر لکھا کہ ’اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ موو فارورڈ نے عوام اور ملک کا بے پناہ اعتماد حاصل کر لیا ہے۔‘
بنکاک کے ضلع بنگ نا میں انتخابات جیتنے والے پیارات ٹوٹو چونگتھیپ نے کہا کہ ’مجھے حیرت ہے کہ ایم ایف پی حکومت بنانے والی سب سے بڑی جماعت ہوگی۔‘
28 سالہ کارکن 2020 میں نوجوانوں کی قیادت میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں میں سب سے آگے تھے جنہوں نے بادشاہ مہا وجیرالونگ کورن کے اختیارات پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کرکے طویل عرصے سے جاری پابندیوں کو توڑ دیا تھا۔ وہ ان کئی احتجاجی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ایم ایف پی کے بینر تلے پارلیمنٹ کے لئے انتخاب لڑا تھا۔
پیرات نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”پارٹی کے لیے، یہ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا ہم تصور کر سکتے تھے۔میں واقعی اس وقت اس احساس کی وضاحت نہیں کر سکتا“۔
پیتونگٹرن شناوترا نے ایم ایف پی کو مبارکباد دیت ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی کو اگلی حکومت کی قیادت کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ ہم آگے بڑھنے کے لئے بات کرنے کیلئے تیارہیں ، لیکن ہم باضابطہ نتائج کا انتظارکررہے ہیں۔ میں ان کیلئے خوش ہوں اور ہم مل کر کام کر سکتے ہیں ۔
موجودہ وزیر اعظم میڈیا کو یہ بتانے کے بعد کہ وہ جمہوریت اور انتخابات کا احترام کرتے ہیں، اپنی انتخابی مہم کے ہیڈ کوارٹر سے چلے گئے۔
الیکشن کمیشن کے پاس اب انتخابی نتائج کی تصدیق کے لیے 60 دن کا وقت ہے۔
’غیر یقینی دور‘
تاہم فی الحال اس حوالے سے غیر یقینی صورتحال برقرار ہے کہ اگلی حکومت تشکیل دی جا سکے گی یا نہیں کیونکہ فوج کی جانب سے مقرر کردہ سینیٹ کے 250 ارکان کو وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے ووٹ دینے کی اجازت دی گئی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ایم ایف پی اور فیو تھائی کو نئی انتظامیہ قائم کرنے کے لئے چھوٹی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایم ایف پی کی مضبوط کارکردگی کے باوجود اسے بنکاک کے گورنمنٹ ہاؤس کے لیے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیتنے والے کسی بھی امیدوار کو وزیر اعظم بننے کے لئے دونوں ایوانوں میں 376 ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔
ایک سیاسی تجزیہ کار کین ماتھیس لوہاٹیپانونٹ نے تھائی انکوائرراخبار میں لکھا کہ “اس وقت، سینیٹ موو فارورڈ کے مینڈیٹ کا احترام کرنے کے لئے تیار ہوگی یا نہیں، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔
ایم ایف پی کی جانب سے اہم نکات بادشاہت اور فوج میں انقلابی اصلاحات ہیں، جن میں تھائی لینڈ کے سخت قوانین میں ترمیم بھی شامل ہے۔ مبہم الفاظ میں لکھے گئے آرٹیکل 112 میں 15 سال قید کی سزا ہے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس کا استعمال سیاسی سرگرمی کو سزا دینے کے لیے کیا گیا ۔
2019 کے آخری انتخابات میں سینیٹ نے متفقہ طور پر پریوتھ کے حق میں ووٹ دیا تھا حالانکہ ان کی پارٹی نے فیو تھائی کے مقابلے میں بہت کم نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس کے بعد وزیر اعظم 19 مختلف جماعتوں کا اتحاد بنانے میں کامیاب ہوگئے جس نے انہیں 4 سال تک عہدے پر برقرار رکھا۔
سینیٹ کی حمایت کے بغیر ایم ایف پی کو فیو تھائی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہوگی، یعنی کہ تھائی ووٹرز کو یہ معلوم کرنے میں ہفتوں لگ سکتے ہیں کہ ان کی نئی حکومت کی قیادت کون کرے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، ’انتخابات میں موو فارورڈ پارٹی کی کامیابی کے باوجود تھائی لینڈ میں غیر یقینی صورتحال طویل عرصہ جاری رہنے کا امکان ہے‘۔












اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔