Aaj News

اتوار, مئ 19, 2024  
10 Dhul-Qadah 1445  

9 مئی کو گولی نہ چلا کر فوج نے درست کیا، غیرآئینی کام روکیں گے، چیف جسٹس

فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران ازخود نوٹس کا مطالبہ
اپ ڈیٹ 03 اگست 2023 05:16pm
تصویر: اے ایف پی
تصویر: اے ایف پی

سپریم کورٹ میں 9 مئی سے متعلق خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمرعطا بندیالنےریمارکس دیے کہ ’لارجربینچ کافیصلہ ہےاکیلاچیف جسٹس ازخودنوٹس نہیں لےسکتا‘۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز احسن نے جب کہا مظاہرین کو گولی کیوں نہیں ماری تو مجھے بہت دکھ ہوا، پاک فوج عوام اورملک کے دفاع کے لیے ہے، پاک فوج نے گولی نہ چلا کر درست اقدام کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین اور عوام کا دفاع کریں گے، فوج کو کسی بھی غیر آئینی اقدام سے روکیں گے۔

خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 6 رکنی لارجربنچ نے کی۔

سماعت کے آغازپرعدالت نے بیرسٹر اعتزاز احسن کو روسٹرم پر بلایا۔

اعتزاز احسن نے روٹرم پر آخر عدالت کو بتایا کہ پارلیمنٹ میں ایک نیا قانون منظور ہوا ہے جس کے مطابق خفیہ ادارے کسی بھی وقت کسی کی بھی تلاشی لے سکتے ہیں۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بغیر وارنٹ تلاشی کا حق قانون سازی کے ذریعے دے دیا گیا۔

اعتزاز احسن نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترامیم پر سوموٹو کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے 6 ججز بیٹھے ہیں، سپریم کورٹ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے خلاف ازخود نوٹس لے، اس قانون سے تو لامحدود اختیارات سونپ دیے گئے ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا یہ قانون ہے یا ابھی بل ہے؟

اعتزاز احسن نے جواب دیا کہ یہ بل ہے جسے قومی اسمبلی نے منظور کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ایک فورم نے پاس کیا ہے، دیکھتے ہیں دوسرا فورم کیا فیصلہ کرتا ہے، یہ بل ابھی پارلیمنٹ میں زیربحث ہے، ہمیں اس بل کا زیادہ علم نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ، ’لارجربنچ کا فیصلہ ہےکہ اکیلا چیف جسٹس ازخود نوٹس نہیں لےسکتا‘۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل متوازی عدالتی نظام کے مترادف ہے۔

جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ بتائیں آرٹیکل 175 اور آرٹیکل 175/ 3کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے زمرے میں نہیں آتا۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا آئین میں ایسی اور کوئی شق ہے جس کی بنیاد پر آپ بات کر رہے ہیں؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آپ کے سوال کو نوٹ کر لیتا ہوں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہ کیا آپ پھر میرے سوال سے ہٹ رہے ہیں؟

جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے تحت قائم عدالت کے زمرے میں نہیں آتا اس لیے اس میں اپیل کا حق نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آرمی ایکٹ کے حوالے سے دیئے گئے جرائم میں سویلین کے ٹرائل کا آئینی جائزہ لے رہے ہیں، ہم اب آئینی طریقہ کار کی جانب بڑھ رہے ہیں کہ کیسے ملٹری کورٹس میں کیس جاتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بنیادی انسانی حقوق کو قانون سازوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا، یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک پارلیمنٹ کچھ جرائم کو آرمی ایکٹ میں شامل کرے اور دوسری پارلیمنٹ کچھ جرائم کو نکال دے یا مزید شامل کرے، بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت تو آئین پاکستان نے دے رکھی ہے۔

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام ممبرز آف آرمڈ فورسز اور دفاعی معاملات کے لیے مخصوص ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ عدالتی نظیر کے مطابق کورٹ مارشل آرمی ایکٹ کے تحت جرائم کی عدالت ہے جو آئینی زمرے میں نہیں آتی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ لیاقت حسین کیس سے پہلے آرڈیننس اور پھر 21ویں آئینی ترمیم آئی، لیکن اب کیا صورتِ حال ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں واضح طور پر قانون اور آئین میں درج کیا گیا کہ یہ فوج کے خلاف جنگ کرنے والوں کیلئے ہے، سمجھ نہیں آتا کہ دفاع پاکستان کے خلاف تو قوانین موجود تھے پھر21ویں ترمیم لانے کی ضرورت کیوں پڑی؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بہتر ہوگا اکیسویں آئینی ترمیم کو ایک بارپڑھ لیا جائے۔

اس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ سمجھتے ہیں اٹارنی جنرل کو مزید سننے کی ضرورت ہے، کچھ عدالت کو بھی سمجھنا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل تک مجھے متوازی عدالتی نظام کے بارے میں معلوم نہیں تھا، آج کے دلائل سے معلوم ہوا کہ متوازی عدالتی نظام کیا ہے، ہر ایک کا دماغ اتنا تیز نہیں ہوتا جتنا میرے برابر بیٹھے ساتھیوں کا ہے، میری خوش قسمتی ہے کہ اتنے عظیم لوگوں کو اس کیس میں سنا، تمام درخواست گزاروں اوروکلاء کا شکر گزارہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب سویلین کا کوئی ٹرائل نہیں ہوگا۔

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یقین دہانی کرا چکے ہیں ٹرائل نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کا سویلینز کو سہولیات دینے کا حکم برقرار رہے گا، کتنا اچھا ہوتا کہ تمام افراد آئین و قانون کی پابندی کریں، جوہمارے ساتھ تعاون کرتے ہیں ان کا بے حد احترام کرتے ہیں، جو تعاون نہ بھی کریں ہم ان کا بھی احترام کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سراہتے ہیں بغیر قانون سازی یا نوٹیفکیشن کے اس کیس میں دفاع کر رہے ہیں، آئندہ سماعت جب بھی ہو تو بتایے گا کہ متوازی عدالتی نظام کیسے قائم ہوسکتا ہے، اپیل کا حق دینا قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے، قانون سازی کے معاملے میں پارلیمنٹ نہ جانے کیوں بہت جلدی میں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خصوصی عدالت میں سویلین کا ٹرائل ایک متوازی جوڈیشل سسٹم نہیں، ہمیں اعتزاز احسن نے بتایا کہ پارلمینٹ بہت جلدی میں ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس معاملے پرآپ کیا کہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم عدالت کویقین دہانی کرواچکے کن وجوہات پر فیصلے دیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کل عدالت ممکن نہیں ہوگی ایک جج دستیاب نہیں ہیں، آگے کچھ جج چھٹیوں پر جانا چاہتے ہیں، جون سے کام کر رہے ہیں ہمیں ایک پلان آف ایکشن دینا ہوگا۔

سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔

SUPREME COURT OF PAKISTAN (SCP)

official secrets act amendment bill 2023

Civilians Trial in Military Courts