Aaj News

جمعہ, مئ 03, 2024  
25 Shawwal 1445  

سائفر فوجداری کیس ہے اور اس میں معمولی شک کا فائدہ بھی ملزمان کو جاسکتا ہے، عدالت

عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل دوبارہ ہو گی
شائع 22 اپريل 2024 07:26pm
فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ یہ ایک فوجداری کیس ہے اور اس میں معمولی شک کا فائدہ بھی ملزمان کو جا سکتا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سائفر کیس میں سزا کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں پر سماعت کی۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر اور دیگر عدالت پیش ہوئے جبکہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد شاہ اور ذوالفقار عباس نقوی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہنے بتایا کہ سائفر ٹیلی گرام سائفر سیکشن کو موصول ہوا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ پہلے سائفر کی تعریف کردیں ہوتا کیا ہے؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے بتایا کہ سائفرای میل کے ذریعے سات مارچ کو واشنگٹن سے آیا، سائفر کو سائفر سیکشن میں نمبر لگایا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل نے سائفر کیس معطل کرنے کا عندیہ دیدیا

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی وکیل سلمان صفدر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ خوش قسمت ہیں آپ نے یہ کتاب دیکھی ہے۔

عدالت نے ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ یہ کلاسیفائیڈ تو نہیں ہے؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اس کتاب پرنمبرلگا ہوا ہے ڈپٹی اٹارنی جنرل کے نام پرجاری ہوئی ہے ، یہ کتاب مخصوص ہاتھوں میں ہی جا سکتی ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا کوڈڈ سائفر میسج کسی اسٹیج پر انٹرسیپٹ تو نہیں ہوا؟ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سائفر اکاونٹیبل ڈاکومنٹ ہے؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ جی کوڈڈ سائفرکسی اسٹیج پرانٹرسیپٹ نہیں ہوا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کتاب کے اندر سے پڑھ کر بتائیں سائفر کو اکاؤنٹیبل ڈاکومنٹ کیسے کہیں گے؟ چیپٹر 8 میں لکھا ہوا ہے ایک دفعہ سے intercepte نہیں ہوگا بلکہ بار بار کرے تو تب ہی معلوم نہیں ہو سکے گا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ کیا یہ کتاب ٹرائل کورٹ کے سامنے تھی؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ دلائل میں تھی لیکن کورٹ کو نہیں دی تھی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کسی غیرمجازفرد کے پاس یہ ڈاکومنٹ بھی نہیں جا سکتا، کیا اٹارنی جنرل نے سرٹیفیکیٹ دیا ہے؟ ویسے اس کی آب ضرورت کیا ہے اتنا کرنے کی ؟ یہ پرانا چلا آرہا ہے اب اس قسم کی کیا ضرورت ہے؟۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ صرف سائفر نہیں بلکہ سارے آفیشل سیکریٹ ریکارڈ پر آتا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میرے ٹیکس ریٹرن پبلک ڈاکومنٹ نہیں ہیں صرف ایف بی آر کے ریکارڈ کے لیے ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب مزید کہا کہ ٹرائل جج نے کہا کہ انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا یہ قانون ہے؟ یا ہدایات ہیں؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے بتایا کہ یہ سیکریٹریٹ کی ہدایات ہیں۔

سازش ہوئی ہے یا نہیں یہ سائفر ڈاکیومنٹ سے ہی پتہ چلے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ

چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ آپ بتا رہے ہیں سائفر کو گریڈ کیسے کیا جا سکتا ہے یہ بھی بتانا ہے قانونی کی خلاف ورزی کہاں ہوئی؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ سائفر گریڈ ٹو کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ ہے، سائفر آفیسر گواہ عمران ساجد کے بیان سے متعلق پڑھنا چاؤں گا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ اس کے contents کے بارے میں کسی گواہ نے کچھ کہا ؟ جس پر اسپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اس کے حوالے سے کسی نے کچھ نہیں کہا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سائفرکاپی تفتیشی افسر کو بھی فراہم نہیں کر سکتے؟

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس ڈاکومنٹ کو سیکرٹ رکھنا ہے ایک چیز ہے، عدالت کو دیکھانے کا تو میکنزم ہے کیا پراسیکوشن سزائے موت مانگ رہی تھی؟ پراسیکوشن نے اس کے خلاف اپیل دائر نہیں کی ، وہاں بھی اس کا متن دیکھانا مناسب نہیں سمجھا گیا ؟ وہاں قانون میں لکھا ہوا ہے آپ عدالت کو خالی کرا سکتے ہیں، پورا کیس اس ڈاکومنٹ کے اردگرد کھڑا ہے ۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ انہوں نے کہا کچھ اور نے بھی کاپی واپس نہیں کی، ان 9 میں بڑے نام ہوں گے میری تو جرات نہیں ہے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے اپنے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے بتایا کہ ہر ملک کے فارن آفس کا اپنا اپنا کوڈ ہے، دفترِ خارجہ کے سسٹم میں سائفر کی سافٹ پرنسپل کاپی موجود ہوتی ہے۔سائفر کی پرنسپل کاپی کی سیکیورٹی اُسی طرح جاری رکھی جاتی ہے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ کسی سفارتی مشن کی طرف سے آنے والا دستاویز سائفر ہی تصور ہو گا؟ ایف بی آر میں کسی کا ڈیٹا خفیہ ہوتا ہے لیکن وہ اس زمرے میں نہیں آتا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ کیا یہ کابینہ ڈویژن کی طرف سے ہدایات ہیں یا قانون ہے، جس پر حامد علی شاہ نے بتایا کہ سائفر گریڈ ٹو کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ ہے۔

یاد رہے کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل دوبارہ ہو گی۔

Justice Amir Farooq

Islamabad High Court

Cypher

justice miangul hassan aurangzeb

Cypher Investigations

cypher case Imran Khan

Cypher case

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div