غیر ضروری ادویات کی ڈی ریگولیشن سے فارما انڈسٹری کے فروغ میں اضافہ
سال 2024 کے اوائل میں غیر ضروری ادویات کی قیمتوں پر ضابطہ ختم کرنے کے فیصلے نے پاکستان کی فارماسیوٹیکل صنعت میں اہم مثبت تبدیلیاں مرتب کی ہیں۔ اس پالیسی کے تحت کمپنیاں ان ادویات کی قیمتیں خود مقرر کر سکتی ہیں جو قومی ضروری ادویات کی فہرست (NEML) میں شامل نہیں ہیں۔
ماہرین کے مطابق، اس پالیسی کا مقصد مارکیٹ پر مبنی نظام قائم کرنا اور اس شعبے کو درپیش دیرینہ مسائل کا حل نکالنا ہے۔
بزنس ریکارڈر کے مطابق اس تبدیلی نے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو مارکیٹ کے حالات کے مطابق قیمتیں ایڈجسٹ کرنے میں بہتری دی ہے۔ قیمتوں کو افراطِ زر اور کرنسی کی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کر کے، کمپنیاں ان ادویات کی پیداوار کو مستحکم کرنے میں کامیاب رہی ہیں جو پہلے قیمتوں کی رکاوٹوں کے باعث مارکیٹ سے غائب ہو رہی تھیں۔
اس کی اہم مثالوں میں پیراسیٹامول اور آئبوپروفین جیسی ادویات کی دوبارہ پیداوار شامل ہے، جو اب آسانی سے دستیاب ہیں۔ تاہم، غیر ضروری ادویات کی مجموعی دستیابی افراطِ زر، توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور زیادہ کارپوریٹ ٹیکس جیسے وسیع اقتصادی عوامل سے جڑی ہوئی ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں کئی اہم ادویات کی قلت دیکھنے کو ملی۔ مریض وینٹولین جیسی ادویات کے لیے بھی پریشان نظر آئے۔ لوگوں کو بلیک مارکیٹ میں مہنگی قیمتوں پر ادویات خریدنے پر مجبور ہونا پڑا، اور اسمگل شدہ و جعلی ادویات مارکیٹ میں داخل ہو گئیں۔
یہ پالیسی ان مینوفیکچررز کے لیے بھی سکون کا باعث بنی ہے جو آپریشنل نقصانات کا شکار تھے۔ قیمتوں میں خودمختاری نے کمپنیوں کو اپنے اخراجات بہتر انداز میں مینیج کرنے اور غیر ضروری ادویات کے شعبے میں مصنوعات کی تنوع کو تلاش کرنے کا موقع دیا ہے۔
اگرچہ غیر ضروری ادویات کی قیمتوں پر ضابطہ ختم کرنے کو ایک ترقی پسند قدم سمجھا جا رہا ہے، تاہم، اس کے طویل مدتی اثرات ابھی مکمل طور پر سامنے نہیں آئے۔
صنعت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ خاص طور پر بیرونی اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مزید اصلاحات ضروری ہیں تاکہ اس کے ممکنہ فوائد کو زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جا سکے۔
پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PPMA) کے سابق چیئرمین ہارون قاسم کہتے ہیں کہ ’غیر ضروری ادویات کی قیمتوں پر ضابطہ ختم کرنا ایک مثبت قدم ہے، جو کاروبار کو زیادہ مؤثر طریقے سے کام کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے اور حکومت کی اس شعبے کی حمایت کا عزم ظاہر کرتا ہے۔‘
چھوٹے کاروباروں اور مارکیٹ میں نئے داخل ہونے والے افراد کو بھی اس زیادہ لچکدار ضابطہ جاتی ماحول میں مواقع ملے ہیں، جو جدت اور تنوع کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ تاہم، زیادہ پیداوار لاگت اور اقتصادی عدم استحکام جیسے مسائل ابھی بھی چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
مستقبل کی منصوبہ بندی میں مزید ضابطہ ختم کرنے یا ہائبرڈ قیمتوں کے ماڈلز متعارف کرانے کی بات کی جا رہی ہے، تاکہ مارکیٹ کی آزادی اور عوامی فلاح و بہبود میں توازن قائم کیا جا سکے۔
صنعت کے ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسے اقدامات سرمایہ کاری کو فروغ دے سکتے ہیں، ترقی کو آگے بڑھا سکتے ہیں، اور پاکستان کی عالمی فارماسیوٹیکل صنعت میں پوزیشن مضبوط کر سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ اصلاحات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں، لیکن اس نے ایک متحرک اور خود مختار فارماسیوٹیکل سیکٹر کے لیے ایک مضبوط بنیاد رکھ دی ہے۔ جیسے جیسے یہ صنعت اس نئے فریم ورک کے مطابق ڈھل رہی ہے، اس کی کامیابی کا انحصار اقتصادی اور عملی چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت پر ہوگا۔













اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔