’فوجی بغاوت کی کوشش ناکام بنادی گئی‘، افریقی ملک بینن کی حکومت کا دعویٰ

فوج کے ایک چھوٹے گروہ نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی جسے ناکام بنادیا گیا ہے، وزیرداخلہ کا بیان
اپ ڈیٹ 07 دسمبر 2025 05:43pm

مغربی افریقا کے ملک بینن کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ فوج کے ایک گروہ کی جانب سے بغاوت کی کوشش کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ باغی گروہ نے سرکاری ٹی وی پر حکومت کے خاتمے اور صدر پیٹریس ٹیلن کی برطرفی کا اعلان کیا تھا تاہم اب حکومت کی جانب سے بغاوت کے ناکام ہونے کی تصدیق کردی گئی ہے۔

بینن کی حکومت کے مطابق اتوار کی صبح فوج کے ایک گروہ نے سرکاری نشریاتی ادارے کا کنٹرول سنبھال کر اعلان کیا کہ کرنل ٹیگری پاسکل کی سربراہی میں ایک فوجی کمیٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے، آئین کو معطل کر دیا گیا ہے اور ملک کی فضائی، زمینی اور بحری سرحدیں بند کی جا رہی ہیں۔

سرکاری ٹی وی پر پڑھ کر سنائے گئے بیان میں باغی گروہ کا کہنا تھا کہ ’فوج عوام کو بھائی چارے، انصاف اور محنت پر مبنی نئے دور کے آغاز کی امید دلاتی ہے۔‘

تاہم چند گھنٹے بعد وزیر داخلہ الاسان سیدو نے تصدیق کی کہ سیکیورٹی فورسز نے بغاوت کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔ انہوں نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ اپنی روزمرہ سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رکھیں۔

رائٹرز کے مطابق وزیر خارجہ اولوشیگن اجدادی باکاری نے بتایا کہ ’ایک چھوٹے گروہ‘ نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی اور وہ صرف سرکاری ٹی وی کا کنٹرول سنبھالنے میں ہی کامیاب ہوئے، جبکہ صدر پیٹریس ٹیلن کے وفادار دستے فوری طور پر متحرک ہو کر صورت حال پر قابو پانے میں کامیاب رہے۔

واضح رہے کہ اتوار کے روز بینن کی سرکاری نشریاتی سروس پر فوجی اہلکاروں کے ایک دستے نے اعلان کیا کہ صدر پیٹریس ٹیلن کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا ہے اور فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

بغاوت کرنے والے گروہ نے خود کو ’ملٹری کمیٹی فار ری فاؤنڈیشن‘ کے نام سے متعارف کرایا اور اعلان کیا کہ ‘لیفٹیننٹ کرنل ٹیگری پاسکل فوجی عبوری کونسل کے سربراہ ہوں گے، جو ملک کا انتظام سنبھالیں گے اور آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے’۔


مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک کے سب سے بڑے شہر کوٹونو میں صبح کے وقت متعدد علاقوں میں فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں، جب لوگ چرچ جانے کی تیاری میں مصروف تھے۔ فرانسیسی سفارت خانے نے اپنی فیس بک پوسٹ میں بتایا کہ صدر کی رہائش گاہ کے قریب فائرنگ کی اطلاعات ہیں اور شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی۔

جس کے بعد حکومتی ترجمان ولفریڈ ہونگبیڈی نے ایوسی ایٹڈ پریس سے گفتفو میں بتایا کہ ‘سب کچھ ٹھیک ہے’، تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

بینن کے وزیرِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘وفادار فوجی دستے اور نیشنل گارڈز نے صورتحال کو کنٹرول کر لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ‘یہ ایک چھوٹے گروہ کی جانب سے کی گئی کوشش ہے، فوج کا بڑا حصہ اب بھی وفادار ہے اور صورتحال سنبھالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔’

صدر کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ وہ محفوظ ہیں، لیکن انکی موجودگی کے مقام سے متعلق کوئی تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔


یہ واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بینن اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی تیاری کر رہا ہے، جس کے بعد صدر پیٹریس ٹیلن کا 2016 سے جاری دورِ حکومت ختم ہوجائے گا۔

گزشتہ ماہ بینن کی پارلیمنٹ نے صدارتی مدتِ میں ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے پانچ سال کی مدت کو بڑھا کر سات سال کر دیا تھا، تاہم اس عہدے کے لیے دو مدت کی حد ہی برقرار رکھی گئی تھی۔

صدر پیٹریس ٹیلن نے صدارتی انتخابات کے بعد عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ انتخابات میں انکی جماعت کے امیدوار اور سابق وزیرِ خزانہ رومیالڈ واداگنی کو فیورٹ تصور کیا جا رہا تھا۔ جبکہ اپوزیشن کے امیدوار رینوڈ اگبوڈجو کی نامزدگی الیکٹورل کمیشن نے یہ کہہ کر مسترد کر دی تھی کہ ان کے پاس انتخاب لڑنے کے لیے درکار اسپانسرز کی مطلوبہ تعداد موجود نہیں۔

کن ممالک کے سربراہان عوامی احتجاج کے دوران ملک چھوڑ کر فرار ہوئے؟

اگرچہ صدر ٹیلن کو ملکی معیشت کو دوبارہ مستحکم کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے، تاہم شمالی علاقوں میں شدت پسند حملوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اپریل میں حکومت نے بتایا تھا کہ القاعدہ سے منسلک گروہ کے ایک حملے میں 54 فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

باغی فوجیوں نے بھی اپنے بیان میں شمالی بینن کی خراب سیکیورٹی صورتحال اور ’شہید ساتھیوں کو نظرانداز‘ کیے جانے کو بغاوت کی وجہ قرار دیا۔

دوسری جانب صدر پیٹریس ٹیلن کو انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے آمرانہ طرزِ حکمرانی اور سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے عدالتی نظام کو استعمال کرنے کے الزامات کا سامنا بھی رہا ہے۔

بینن کے صدر پیٹریس ٹیلن کی تصویر
بینن کے صدر پیٹریس ٹیلن کی تصویر


مڈگاسکر میں جین زی احتجاج کے بعد صدر ملک سے فرار، فوج نے کنٹرول سنبھال لیا

بینن میں یہ بغاوت کی یہ کوشش ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب خطے میں سیاسی عدم استحکام میں پہلے ہی اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں سال مڈگاسکر میں بھی فوج نے جین زی کے احتجاج کے بعد ملک میں حالات خراب ہونے پر اقتدار سنبھال لیا تھا۔

اکتوبر میں مڈگاسکر کے صدر اینڈری راجوئلینا ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔ یہ اقدام کئی ہفتوں سے جاری نوجوانوں کی حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے بعد سامنے آیا تھا، جس نے ملک کو شدید سیاسی بحران سے دو چار کر دیا تھا۔

مغربی افریقی ملک گنی بساؤ میں بھی گزشتہ ماہ فوج نے سابق صدر عمرو ایمبالو کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا تھا، جہاں معزول صدر اور اپوزیشن امیدوار دونوں کی جانب سے انتخابات میں فتح کے دعوے کیے جارہے تھے۔

گنی بساؤ میں فوج نے اعلان کیا کہ صدر عمرو ایمبالو کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اس اعلان کے اگلے ہی روز جنرل ہورتا انٹا نے عبوری صدر کے طور پر اقتدار سنبھال لیا۔ یہ اقدام اس وقت ہوا جب ملک کے صدارتی انتخابات کے عبوری نتائج کے اعلان سے صرف ایک روز قبل سیاسی ماحول انتہائی کشیدہ تھا۔

military coup

Madagascar

West Africa

Guinea Bissau

Benin

military coup in Benin