کراچی یونیورسٹی نے جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری جعلی قرار دے دی
کراچی یونیورسٹی نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری کو جعلی قرار دیا ہے۔ جامعہ کے ناظم امتحانات نے بتایا کہ ڈگری اور مارک شیٹ میں نہ صرف انرولمنٹ نمبر بلکہ دیگر دستاویزات میں بھی جعلسازی کی گئی تھی۔
کراچی یونیورسٹی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انرولمنٹ نمبر 5968/87 دراصل امتیاز احمد نامی طالب علم کو الاٹ تھا، جبکہ طارق محمود نے ایل ایل بی پارٹ ٹو کے نمبر 7124/87 کو جعل سازی کے ذریعے استعمال کیا۔ اس دوران نام اور انرولمنٹ نمبر بار بار تبدیل کیے گئے تاکہ مارک شیٹس اور ڈگری حاصل کی جا سکیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ شہری عرفان مظہر کی درخواست پر یونیورسٹی نے دوبارہ تحقیقاتی عمل شروع کیا اور کنٹرولر امتحانات نے دوہرے انرولمنٹ نمبرز کو ناممکن قرار دیتے ہوئے ڈگری اور مارک شیٹس کو غلط قرار دیا۔ اسلامیہ کالج کے پرنسپل نے بھی تصدیق کی کہ طارق محمود 1984 سے 1991 تک کالج کے طالب علم نہیں رہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنا مؤقف پیش کیا کہ ڈگری جاری کرنا یونیورسٹی کا اختیار ہے اور ایچ ای سی کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں بنتا۔
ایچ ای سی نے واضح کیا کہ چونکہ کراچی یونیورسٹی اس ڈگری کو تسلیم نہیں کرتی، لہٰذا ایچ ای سی بھی اس ڈگری کو تسلیم نہیں کر سکتی۔
190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج کے خلاف درخواست ناقابلِ سماعت قرار
پس منظر
یاد رہے کہ جولائی 2024 میں سوشل میڈیا پر ایک خط گردش کرنے لگا تھا جو مبینہ طور پر جامعہ کراچی کے کنٹرولر امتحانات کی طرف سے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری کے حوالے سے لکھا گیا تھا۔
یہ خط مبینہ طور پر جامعہ کراچی کی جانب سے سندھ ٹرانسپیرنسی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016 کے تحت انفارمیشن کی درخواست کا جواب تھا، اس میں کہا گیا تھا کہ امیدوار طارق محمود نے 1991 میں انرولمنٹ نمبر 5968 کے تحت ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔
تاہم، ایک طالب علم امتیاز احمد نے 1987 میں اسی انرولمنٹ نمبر کے تحت داخلہ لیا، جب کہ ایل ایل بی پارٹ ون کا ٹرانسکرپٹ جسٹس طارق جہانگیری کے نام سے جاری کیا گیا۔
مزید برآں، طارق محمود نے ایل ایل بی پارٹ ون کے لیے انرولمنٹ نمبر 7124 کے تحت داخلہ لیا تھا، خط میں ڈگری کو جعلی قرار نہیں دیا گیا تھا لیکن اسے غلط قرار دیا گیا، جس میں وضاحت کی گئی کہ یونیورسٹی پورے ڈگری پروگرام کے لیے ایک انرولمنٹ نمبر جاری کرتی ہے جس سے طالب علم کے لیے ایک پروگرام کے لیے دو انرولمنٹ نمبر رکھنا ناممکن ہے۔
اس کے بعد وکیل میاں داؤد نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی ڈگری کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں اور تحقیقات کی جائیں۔ درخواست پر رجسٹرار آفس نے اعتراضات لگائے اور چیف جسٹس عامر فاروق نے ان کی سماعت کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ بعد ازاں یہ معاملہ موجودہ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے سامنے آیا۔ سندھ ہائی کورٹ میں بھی وکلا نے رٹ دائر کی اور اس پر اسٹے آرڈر جاری ہوا۔ اس دوران سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بھی فریق بننے کی درخواست دی۔
کراچی یونیورسٹی نے اپنی پریس ریلیز میں کہا کہ اگست 2024 میں سنڈیکیٹ کے اجلاس میں طارق محمود کے انرولمنٹ نمبر 7124/87 اور سیٹ نمبر 22857 کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ طارق محمود پر تین سال کے لیے کسی بھی کالج میں داخلے اور یونیورسٹی کے امتحان میں بیٹھنے پر پابندی عائد کی گئی۔
جسٹس طارق محمود جہانگیری پاکستان تحریک انصاف کے دور میں 28 دسمبر 2020 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ ان کی پروفائل کے مطابق انہوں نے کراچی یونیورسٹی کے اسلامیہ لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں مختلف عدالتی عہدوں پر فائز رہے اور فوجداری معاملات میں مہارت رکھتے ہیں۔
ان کی عدالتی خدمات میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف مقدمات، بلینکٹ پروٹیکشن کیسز شامل ہیں۔ جبکہ انہوں نے فوج کے خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت سے متعلق خطوط بھی لکھے ہیں۔
جسٹس جہانگیری اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان چھ ججز میں شامل تھے جنہوں نے گزشہ برس مارچ میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک مشترکہ خط لکھ کر عدالتی امور میں خفیہ ایجنسیوں بالخصوص آئی ایس آئی کی مداخلت کے سنگین الزامات عائد کیے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے خلاف لکھے جانے والے خط کے بعد جامعہ کراچی میں ایک شہری کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی جس میں آئین کے آرٹیکل 19 اور سندھ ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016 کے تحت جسٹس طارق محمود جہانگیری کا تعلیمی ریکارڈ حاصل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔












