کینسر جین والے ڈونر کے سپرم سے یورپ میں تقریباً 200 بچوں کی پیدائش
یورپ بھر میں تقریباً 200 بچوں کی پیدائش ایسے سپرم ڈونر کے ذریعے ہوئی ہے جس میں کینسر سے منسلک خطرناک جینیاتی مادہ (Gene Mutation) موجود تھا، جس کا اسے خود بھی علم نہیں تھا۔
جین میوٹیشن کا مطلب جسم کے اندر موجود ذرات میں اچانک آنے والی تبدیلی، جو کبھی فائدہ مند اور کبھی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ سپرم برطانوی فرٹیلٹی کلینکس کو فراہم نہیں کیا گیا، تاہم برطانیہ کی کچھ خواتین نے ڈنمارک میں علاج کے دوران اسی ڈونر کا استعمال کیا تھا۔
ڈونر کے جسم میں ٹی پی 53 نامی جین میں تبدیلی موجود تھی، جو عام طور پر جسم میں کینسر بننے سے روکنے کا کام کرتا ہے۔ اس جین کے ایک حصے کے خراب ہونے کے باعث اس کے تقریباً 20 فیصد سپرم میں یہ نقص پایا گیا تھا۔
جن بچوں کی پیدائش ان متاثرہ سپرم سیلز کے ذریعے ہوئی، ان کے جسم کے ہر خلیے میں یہی نقص موجود ہے۔ اس کے نتیجے میں انہیں لی-فراومینی سنڈروم لاحق ہو جاتا ہے جو کہ ایک نایاب مگر انتہائی سنگین جینیاتی بیماری ہے، جس سے 60 سال کی عمر تک کینسر ہونے کا خطرہ 90 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
یہ سنڈروم چھاتی کے کینسر، دماغی رسولیوں، ہڈیوں کے کینسر (اوسٹیوسارکوما)، اور کئی بچوں میں پائے جانے والے مہلک امراض سے وابستہ ہے۔
بی بی سی اور 13 دیگر عوامی نشریاتی اداروں کی مشترکہ تحقیق سے انکشاف ہوا کہ کچھ بچے پہلے ہی جان کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ توقع ہے کہ مزید بچے اپنی زندگی کے دوران مختلف اقسام کے کینسر کا شکار ہو سکتے ہیں۔
سردیوں میں چائے میں لونگ ڈالنے کی 4 وجوہات
ڈونر 2005 میں بطور طالب علم سپرم عطیہ کر رہا تھا اور اسے اس کے بدلے ادائیگی ہوتی تھی۔ اس کے سپرم کے نمونے 17 سال تک استعمال کیے گئے اور تمام معمول کے اسکریننگ ٹیسٹوں میں کلیئر ہوتے رہے۔
اس وقت تک موجودہ معیار کی اسکریننگ کے ذریعے ٹی پی 53 کے اس مخصوص تبدیلی کا پتہ چلانا ممکن ہی نہیں تھا۔
ڈنمارک کا یورپین سپرم بینک، جس نے ڈونر کا سپرم فراہم کیا، اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اس ڈونر کے سپرم کا استعمال غیر معمولی طور پر زیادہ حملوں کے لیے کیا گیا۔ ادارے نے متاثرہ خاندانوں سے افسوس کا اظہار کیا ہے اور تمام شناخت شدہ خاندانوں سے رابطہ کر لیا گیا ہے۔
تھائیرائیڈ کے شکار افراد کا ڈائٹنگ کرنا کیوں خطرناک ہے؟
سپرم بینک کا کہنا ہے کہ موجودہ معمول کے ٹیسٹ اس طرح کی جینیاتی تبدیلی نہیں پکڑ سکتے، تاہم جیسے ہی مسئلہ سامنے آیا، ڈونر کو فوراً روک دیا گیا۔
یورپین سوسائٹی آف ہیومن جینیٹکس کی ایک حالیہ میٹنگ میں ڈاکٹروں نے اس معاملے پر تشویش ظاہر کی۔
اس وقت تک شناخت شدہ 67 بچوں میں سے 23 میں یہ تبدیلی موجود تھی، اور 10 پہلے ہی کینسر میں مبتلا ہو چکے تھے۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں کم از کم 197 بچوں کی پیدائش اسی ڈونر کے سپرم سے ہوئی ہو سکتی ہے، اور اصل تعداد اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ تمام ممالک نے ڈیٹا شیئر نہیں کیا۔
برطانیہ میں ایک ہی ڈونر کے سپرم سے زیادہ سے زیادہ 10 خاندانوں کو اولاد پیدا کرنے کی اجازت ہے، جبکہ کئی ممالک میں کہیں زیادہ تعداد کی اجازت موجود ہے۔
برطانوی فرٹیلٹی ریگولیٹر ایچ ایف ای اے نے تصدیق کی ہے کہ یہ سپرم برطانیہ کے لائسنس یافتہ کلینکس کو فراہم نہیں کیا گیا، تاہم برطانیہ کی چند خواتین نے ڈنمارک کے کلینکس میں علاج کے دوران اسی سپرم کا استعمال کیا۔
ایچ ایف ای اے کے مطابق چونکہ علاج برطانیہ میں نہیں ہوا، اس لیے اس کیس کی ذمہ داری ڈنمارک کے حکام پر عائد ہوتی ہے۔
















