غزہ جنگ: امریکا نے عارضی طور پر اسرائیل کو انٹیلی جنس معلومات کیوں روکیں؟
امریکی انٹیلی جینس حکام نے سابق امریکی صدر جو بائیڈن کے دور میں غزہ میں جنگ سے متعلق اسرائیل کے طرزِ عمل پر خدشات کے باعث عارضی طور پر اسرائیل کے ساتھ بعض اہم معلومات کا تبادلہ معطل کر دیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق اس معاملے سے واقف چھ افراد نے انکشاف کیا کہ یہ اقدام امریکی انٹیلی جینس اداروں کے اندر بڑھتی ہوئی تشویش کے نتیجے میں کیا گیا تھا۔ تمام افراد نے امریکی انٹیلی جینس سے متعلق حساس معاملات پر بات کرنے کے لیے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر گفتگو کی۔
رپورٹ کے مطابق 2024 میں امریکا نے غزہ کے اوپر پرواز کرنے والے ایک امریکی ڈرون سے حاصل ہونے والی براہِ راست ویڈیو فیڈ اسرائیل کو فراہم کرنا بند کر دی تھی۔ یہ ویڈیو فیڈ اسرائیلی حکومت کی جانب سے یرغمالیوں اور حماس کے جنگجوؤں کی تلاش میں استعمال کی جا رہی تھی۔ پانچ ذرائع نے بتایا کہ یہ معطلی کئی دنوں تک جاری رہی تھی۔
اس معاملے سے واقف دو ذرائع کے مطابق امریکا نے غزہ میں اعلیٰ فوجی اہداف کے تعاقب کے دوران اسرائیل کی جانب سے بعض انٹیلی جینس معلومات کے استعمال پر بھی پابندیاں عائد کیں، تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ فیصلہ کب کیا گیا تھا۔
یہ فیصلے ایسے وقت میں سامنے آئے جب امریکی انٹیلی جینس کے اندر غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں شہری ہلاکتوں کی تعداد پر شدید تشویش بڑھتی جا رہی تھی۔ حکام کو اس بات پر بھی خدشات تھے کہ اسرائیل کا داخلی سلامتی کا ادارہ شن بیت فلسطینی قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کر رہا ہے۔
تین ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ امریکی حکام کو اس بات پر بھی تشویش تھی کہ اسرائیل نے اس بات کی خاطر خواہ یقین دہانی فراہم نہیں کی تھی کہ وہ امریکہ کی فراہم کردہ خفیہ معلومات کو جنگی قوانین کے مطابق استعمال کرے گا۔
امریکی قانون کے تحت انٹیلی جینس اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے ساتھ معلومات کے تبادلے سے قبل ایسی یقین دہانیاں حاصل کریں۔
اگرچہ بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کے ساتھ انٹیلی جینس اور اسلحے کی فراہمی کے ذریعے مسلسل حمایت کی پالیسی برقرار رکھی تھی، تاہم دو ذرائع کے مطابق انٹیلی جینس اداروں کے اندر معلومات روکنے کا فیصلہ محدود اور حکمتِ عملی پر مبنی تھا۔ خبر رساں ادارے کو بتایا گیا کہ حکام اس بات کو یقینی بنانا چاہتے تھے کہ اسرائیل امریکی انٹیلی جینس کو جنگی قوانین کے مطابق استعمال کر رہا ہے۔
اس معاملے سے واقف ایک شخص کا کہنا تھا کہ انٹیلی جینس حکام کو بعض فیصلے وائٹ ہاؤس کے باضابطہ حکم کے بغیرکرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔
ایک اور ذرائع نے بتایا کہ اسرائیل کی جانب سے امریکی انٹیلی جینس کے استعمال کے طریقہ کار میں کسی بھی تبدیلی کی درخواست کے لیے نئی یقین دہانیاں درکار تھیں۔
تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ فیصلے کن تاریخوں کو کیے گئے تھے یا آیا صدر جو بائیڈن ان فیصلوں سے آگاہ تھے یا نہیں۔ بائیڈن کے ترجمان نے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
غزہ میں طوفانی بارش: بے گھر فلسطینیوں کے خیمے ڈوب گئے، سردی سے 8 ماہ کی بچی جاں بحق
ماہرین کے مطابق کسی اہم اتحادی ملک کو خصوصاً کسی تنازع کے دوران میدانِ جنگ کی انٹیلی جینس معلومات فراہم نہ کرنا غیر معمولی بات ہے اور یہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی ایک سطح کی نشاندہی کرتا ہے۔
اسرائیل کے معاملے میں یہ قدم سیاسی طور پر بھی حساس ہے، کیونکہ امریکا اور اسرائیل کے درمیان طویل عرصے سے قریبی انٹیلی جینس تعلقات رہے ہیں اور 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد اسرائیل کو مضبوط دو طرفہ امریکی حمایت حاصل رہی ہے۔














