ٹرمپ کا غزہ منصوبہ: فیلڈ مارشل عاصم منیر عالمی توجہ کا مرکز
پاکستان کے چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل عاصم منیر اس وقت عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق، امریکا کی جانب سے غزہ کے لیے پیش کیے گئے منصوبے میں پاکستان سے کردار ادا کرنے کی توقعات سامنے آ رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ معاملہ نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی بلکہ داخلی سیاسی صورتحال کے لیے بھی ایک بڑا امتحان بن سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق امکان ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر آئندہ چند ہفتوں میں واشنگٹن کا دورہ کریں گے، جہاں وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔
یہ چھ ماہ کے دوران دونوں رہنماؤں کی تیسری ملاقات ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق، اس ملاقات میں غزہ کے لیے مجوزہ اسٹیبلائزیشن فورس پر تفصیلی بات چیت متوقع ہے۔ اس فورس کا تصور صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ منصوبے کا حصہ ہے، جس کے تحت مسلم ممالک کے فوجی دستے جنگ سے متاثرہ فلسطینی علاقے میں عبوری استحکام، تعمیر نو اور معاشی بحالی کی نگرانی کریں گے۔
تاہم کئی ممالک اس مشن میں شمولیت سے ہچکچا رہے ہیں کیونکہ اس کا ایک مقصد غزہ میں موجود حماس کو غیر مسلح کرنا بھی بتایا جا رہا ہے، جس سے خطے میں تنازع میں مزید شدت آنے اور اپنے اپنے ممالک میں عوامی ردعمل کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر وہ ممالک جن کی آبادی فلسطین کے حق میں مضبوط جذبات رکھتی ہے، وہاں حکومتوں کے لیے یہ فیصلہ آسان نہیں ہوگا۔
رائٹرز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے حالیہ مہینوں میں واشنگٹن کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر خاص توجہ دی ہے۔ جون میں انہیں وائٹ ہاؤس میں ظہرانے کی دعوت دی گئی، جو ایک غیر معمولی واقعہ تھا کیونکہ پہلی بار کسی امریکی صدر نے پاکستان کے آرمی چیف کو سویلین قیادت کے بغیر مدعو کیا۔
تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کے مطابق اگر پاکستان غزہ فورس میں کردار ادا نہیں کرتا تو اس سے صدر ٹرمپ ناراض ہو سکتے ہیں، جو پاکستان کے لیے ایک حساس معاملہ ہو سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب اسلام آباد امریکی سرمایہ کاری اور سیکیورٹی تعاون کا خواہاں ہے۔
پاکستان دنیا کا واحد مسلم ملک ہے جو ایٹمی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی فوج کو طویل جنگی تجربہ حاصل ہے، جس میں بھارت کے ساتھ تین جنگیں اور مختلف علاقوں میں شورش کے خلاف کارروائیاں شامل ہیں۔ اس وقت بھی پاکستان کو افغانستان سے منسلک عسکریت پسند گروہوں کے خلاف سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔
دفاعی تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان کی فوجی صلاحیت کی وجہ سے فیلڈ مارشل عاصم منیر پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ اس صلاحیت کو عالمی سطح پر استعمال کرنے کے حوالے سے فیصلے کریں۔
خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو غیر معمولی اختیارات بھی حاصل ہوئے ہیں۔ انہیں چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ دے کر بری، بحری اور فضائی افواج کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے، ان کی مدتِ ملازمت 2030 تک بڑھا دی گئی ہے اور آئینی ترامیم کے تحت انہیں تاحیات قانونی تحفظ بھی حاصل ہو گیا ہے۔
رائٹرز کے گفتگو کرنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت پاکستان میں شاید ہی کوئی اور شخصیت ہو جس کے پاس اتنے وسیع اختیارات ہوں۔
رپورٹ کے مطابق، داخلی سطح پر اصل تشویش یہ ہے کہ اگر پاکستان نے امریکا کے حمایت یافتہ غزہ منصوبے کے تحت فوج بھیجی تو ملک میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔ ماضی میں امریکا اور اسرائیل مخالف جماعتیں بڑے پیمانے پر احتجاجی طاقت کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔
اگرچہ ایک سخت گیر مذہبی جماعت پر حال ہی میں پابندی لگائی گئی اور اس کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا، لیکن حکام کے مطابق اس کی سوچ اب بھی معاشرے کے بعض حصوں میں موجود ہے۔
سیکیورٹی امور کے ماہر عبدالباسط کے مطابق اگر غزہ میں صورتحال بگڑتی ہے اور پاکستانی فوج وہاں موجود ہوتی ہے تو اندرونِ ملک فوری طور پر سیاسی اور عوامی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں، اور یہ تاثر پیدا ہو سکتا ہے کہ پاکستان اسرائیل کے مفادات کے لیے کام کر رہا ہے۔
اس تمام صورتحال میں حکومتِ پاکستان، فوج اور خارجہ پالیسی ساز ادارے تاحال کھل کر مؤقف سامنے نہیں لائے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ آنے والے ہفتے اس حوالے سے فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ ایک طرف امریکا کے ساتھ تعلقات کا سوال ہے اور دوسری طرف اندرونی استحکام اور عوامی ردعمل کا حساس معاملہ ہے۔















