چین میں دنیا کا سب سے بڑا بجلی کا خفیہ منصوبہ، بھارت میں تشویش
چین کے تبت میں پن بجلی کے منصوبے کو اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا نے اس منصوبے کو بھارت کے لیے ‘واٹر بم’ قرار دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ متنازع سرحد کے قریب واقع ہونے کے باعث یہ منصوبہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کا نیا سبب بن سکتا ہے۔
چین تبت میں یارلونگ سانگپو دریا پر دنیا کا سب سے بڑا اور طاقتور ترین ہائیڈرو پاور سسٹم تعمیر کر رہا ہے، جسے مکمل ہونے میں کم از کم ایک دہائی لگ سکتی ہے اور اس کی لاگت تقریباً 1.2 ٹریلین یوآن ہے۔
یہ منصوبہ پانچ بجلی گھروں پر مشتمل ہوگا، جو سالانہ تقریباً 300 ارب کلو واٹ آور بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوگا۔ اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت دنیا کے سب سے بڑے ڈیم سے تین گنا زیادہ ہوگی تاہم اس کی تکنیکی تفصیلات اور علاقائی اثرات کو کافی حد تک پوشیدہ رکھا گیا ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے رواں برس کے آغاز میں تبت کے دورے کے موقع پر اس منصوبے کو مؤثر طریقے سے آگے بڑھانے کی ہدایت دی۔ تبت وہ خطہ ہے جہاں چین معاشی ترقی اور استحکام کے نام پر اپنی گرفت مزید مضبوط کر رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق، تبت میں دریائے یارلنگ سانگپو کے زیریں حصے پر تعمیر ہونے والا یہ پن بجلی نظام انجینئرنگ کا ایک ایسا کارنامہ ہوگا جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔

پہاڑوں کو کاٹ کر سرنگیں بنانے اور تقریباً دو ہزار میٹر کی قدرتی بلندی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، چین ایشیا کے ‘واٹر ٹاور’ کہلانے والے خطے میں ایک بڑے دریا کی طاقت کو توانائی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔
اس منصوبے سے نہ صرف چین کی بڑھتی ہوئی توانائی ضروریات پوری ہونے کے امکانات ہیں بلکہ اس سے الیکٹرک گاڑیوں اور مصنوعی ذہانت جیسے زیادہ توانائی کا استعمال کرنے والے شعبوں کو بھی سہارا ملے گا۔
سی این این کے مطابق بھارتی میڈیا نے اس منصوبے کو ممکنہ طور پر ‘واٹر بم’ قرار دیا ہے، جبکہ متنازع سرحد کے قریب واقع ہونے کے باعث یہ منصوبہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کا نیا سبب بن سکتا ہے۔ ان تمام خدشات کے باوجود منصوبے کی تفصیلات اب تک راز میں رکھی گئی ہیں، جس سے مزید سوالات جنم لے رہے ہیں۔
بھارت کی ریاست اروناچل پردیش کے وزیر اعلیٰ نے اس ڈیم کو خطے کے لیے وجودی خطرہ قرار دیا ہے۔ بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے گی۔
چین کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس منصوبے پر دہائیوں تک تحقیق کی گئی ہے اور انجینئرنگ تحفظ و ماحولیاتی حفاظت کے جامع اقدامات کیے گئے ہیں، تاکہ زیریں علاقوں پر منفی اثرات نہ پڑیں۔ وزارت کے مطابق چین نے دوسرے ممالک کے ساتھ رابطے کھلے رکھے ہیں اور آئندہ بھی ضروری معلومات فراہم کی جائیں گی۔
ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ انجینئرنگ کا ایک بے مثال کارنامہ ہوگا، جس میں پہاڑوں کے اندر سرنگیں بنا کر تقریباً دو ہزار میٹر کی بلندی سے پانی کے بہاؤ کو استعمال کیا جائے گا۔
ماہرین کے مطابق اگر چین اور بھارت نے تعاون کے بجائے مسابقت کا راستہ اپنایا تو دریائے برہم پترا (یارلنگ سانگپو کا بھارتی حصہ) پر ڈیموں کی دوڑ خطے کے لیے مزید خطرات پیدا کر سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شفاف معلومات کا تبادلہ اور مشترکہ انتظام ہی ان خدشات کو کم کرنے کا واحد راستہ ہے۔














