پاکستان میں بولی وڈ فلموں کی نمائش کی دوبارہ اجازت دینے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 28 جنوری 2017 04:33am

kabil

حکومت نے انڈین فلموں پر عائد غیر اعلانیہ پابندی ختم کرتے ہوئے انہیں استثنیٰ یا نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ ایک بار پھر سے جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیرِ مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈین فلموں کے لیے این او سی دینے کا عمل ایک بار پھر شروع کیا جا رہا ہے اور جلد ہی پاکستانی سینما گھروں میں بھارتی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جا سکیں گی۔

مریم اورنگزیب نے پچیس جنوری کو ریلیز ہونے والی ماہرہ خان اور شاہ رُخ خان کی فلم رئیس اور ہریتک روشن کی فلم قابل کے بارے میں خصوصیت سے بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی فلم کا نام لے کر کچھ نہیں کہیں گی مگر جب این او سی دیا جا رہا ہے تو سب ہی فلموں کو مل جائے گا البتہ انہیں سینسر کے مرحلے سے گزرنا ہوگا۔

نجی  فلمز کے بدر اکرام نے بی بی سی کو بتایا کہ ابھی تک انہیں این او سی موصول نہیں ہوا ہے تاہم ان کی اطلاعات کے مطابق ہریتک روشن کی فلم قابل کو این او سی جاری ہو گیا ہے جو انہیں ممکنہ طور پر جمعے کی صبح موصول ہو جائے گا جس کے بعد ان کی کوشش ہوگی کے دوپہر تک اس کا سینسر کروا کر سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیں تاکہ یہ فلم جمعے کی شب سینما میں دکھائی جا سکے۔

تاہم ماہرہ خان کی فلم رئیس کی ریلیز کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں شاید مزید کچھ وقت لگ سکتا ہے تاہم انہیں امید ہے کہ آئندہ جمعے تک رئیس بھی ریلیز کر دی جائے گی۔

یاد رہے کہ پاکستان میں 1965 سے انڈین فلموں کی درآمد پر پابندی عائد ہے اور انڈین فلمیں پاکستان میں ممنوعہ درآمدی اشیاء کی فہرست میں شمار ہوتی ہیں۔

دو ہزار سات میں حکومت نے ایک پالیسی بنائی تھی جس کے تحت انڈین فلموں کی محدود تعداد کو پاکستان میں نمائش کے لیے خصوصی استثنیٰ یا این او سی جاری کیا جاتا تھا جس کے بعد وہ فلم پاکستان میں درآمد کی جاتی تھی اور پھر اسے سینسر بورڈ منظور کرتا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزارتِ تجارت کے پاس اب استثنیٰ یا این او سی جاری کرنے کا اختیار نہیں رہا ہے اور تب سے یہ معاملہ اسی طرح لٹکا ہوا تھا۔

گذشتہ سال اگست میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ درآمد کی پالیسی کے 19ویں پیرا کے مطابق استثنیٰ کا اختیار وزیرِ تجارت سے لے کر وفاقی حکومت کو دے دیا گیا تھا۔

اس سے پہلے انڈین فلموں کو وزارتِ تجارت، وزارتِ اطلاعات و نشریات کی سفارش پر استثنیٰ کا سرٹیفیکیٹ یا این او سی جاری کیا کرتی تھی۔

ترمیم کے بعد اب وزیرِاعظم ہی انڈین فلموں کی درآمد کی اجازت دے سکتے ہیں۔

mahira

یاد رہے کہ گذشتہ سال ستمبر میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں واقع اُڑی کیمپ پر ہونے والے حملے کے دو ہفتے بعد انڈین موشن پکچرز ایسوسی ایشن نے پاکستانی فنکاروں کے انڈیا میں کام کرنے پر پابندی عائد کرنے کی قرارداد منظور کی تھی جس کے جواب میں پاکستان میں سینما مالکان نے اپنے طور پر انڈین فلموں کی نمائش روک دی تھی۔

یہ خود ساختہ پابندی دسمبر میں اٹھا لی گئی مگر اس کے بعد سے تاحال کوئی نئی انڈین فلم پاکستانی سینما کی زینت نہیں بن سکی تھی۔

پاکستان فلم ایگزیبیٹرز کے مطابق انڈین فلموں پر پابندی عائد کرنے کے بعد سے اب تک پاکستانی سینما گھروں میں لوگوں کی آمد میں 70 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی جس کی وجہ سے ملٹی پلیکسز کو 40 فیصد اسکرینز بند کرنا پڑیں جبکہ اسی وجہ سے 1700 افراد کی نوکریاں بھی ختم کردی گئیں۔

سینما بند ہونا شروع ہوئے تو زیر تکمیل پاکستانی فلموں پر کام بھی رک گیا اور اس طرح پوری صنعت ہی بحران کا شکار ہوگئی۔

انڈین فلموں کی ایک بار پھر نمائش سے امید پیدا ہوئی ہے کہ سینما گھرایک بار آباد ہو جائیں گے۔

بشکریہ:بی بی سی اردو