'غالب ہر دور کے شاعر ہیں'
اردو زبان کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی آج 148ویں برسی منائی جارہی ہے۔
گیارہ سال کی عمر میں پہلا شعر کہنے والے اسد اللہ کو شاید خود بھی معلوم نہ تھا کہ جو دیا انہوں نے جلایا ہے وہ اردو زبان کو رہتی دنیا تک روشن کرتا رہے گا۔
لفظوں سے کھیلنا غالب کا کمال تھا،انہوں نے غزل کو نئے جہانوں سے روشناس کرایا،ابتدائی دور میں اساتذہ اور شعراء نے غالب پرتنقید کی کہ ان کی شاعری رنگوں سے عاری اور مشکل ہے،اس کے علاوہ ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ مرزا صرف اپنے لیے لکھتے ہیں۔
بالآخر دنیا نے تسلیم کیا کہ غالب آفاقی شاعر ہیں اور ان کی شاعری کائنات کی شاعری ہے،مرزا نے شعر کو انسانی نفسیات اور کائنات کے اسرار و رموز بیان کرنے کا بھی ذریعہ بنایا۔
ان کے اشعار نہ صرف فلسفہ کائنات و زندگی کا احاطہ کرتے ہیں، بلکہ ان کے ہاں غم اور دکھ بھی نمایاں ہیں،صدیاں گذر گئیں لیکن غالب کی شاعری پہلے کی طرح ترہ تازہ ہے،کسی نے صحیح کہاہے غالب کی شاعری آج کی شاعری ہے،'یعنی غالب ہر دور کا شاعر ہے'۔

















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔