Aaj News

اتوار, اپريل 28, 2024  
19 Shawwal 1445  
Live
Peshawar police lines blast Jan 2023

پولیس لائنز مسجد میں دھماکے کے تیسرے روز باجماعت نماز کی ادائیگی

نماز ظہر میں چیف کیپٹل پولیس آفیسر اعجاز خان سمیت دیگر شریک ہوئے
شائع 01 فروری 2023 02:28pm

پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں دھماکے کے تیسرے روز باجماعت نماز کی ادائیگی کی گئی ہے۔

پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے کے تیسرے روز باجماعت نماز کا اہتمام کیا گیا، باجماعت نماز ظہر پولیس لائنز مسجد ہال میں ادا کی گئی۔

نماز ظہر میں چیف کیپٹل پولیس آفیسر اعجاز خان، ایس ایس پی کوآرڈینیشن ظہور بابر آفریدی اور پولیس جوان شریک ہوئے۔

یاد رہے کہ 29 جنوری کو پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد 101 ہوگئی ہے جبکہ 200 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

خادمِ حرمین شریفین کی پشاوربم دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت

شاہ سلمان اور شہزادہ محمد بن سلمان نے صدر مملکت کے نام خط لکھا
شائع 01 فروری 2023 01:30pm

خادم حرمین شریفین نے پشاور میں ہونے والے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے تعزیت کا اظہارکیا ہے۔

سعودی باشادہ شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی کے نام خط لکھا، جس میں انہوں نے ہم دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہارکیا۔

شاہ سلمان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پشاور میں ہونے والا دھماکا دہشت گردی ہے، ہم ہر قسم کی انتہا پسندی کو مسترد کرتے ہیں۔

شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کے ساتھ ہیں سعودی عرب ہر طرح کی دہشت گردی کو مسترد کرتا ہے، جبکہ جاں بحق افراد کے اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔

کہا جاتا ہے دہشتگردوں سے مذاکرات کرو، ریاست کہاں ہے؟ سپریم کورٹ

جسٹس فائز عیسیٰ کے پشاور خودکش حملے کے حوالے سے اہم ریمارکس
شائع 01 فروری 2023 12:30pm
فوٹو۔۔۔۔۔۔ فائل
فوٹو۔۔۔۔۔۔ فائل

پشاورخودکش حملے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اہم ریمارکس دیے ہیں کہ کبھی کہا جاتا ہے دہشت گردوں سے مذاکرات کرو، اس دوران ریاست کہاں ہے؟

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے قتل کے مقدمے کے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے، جس میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں؟

عدالت عظمیٰ کے جج نے ریمارکس دیے کہ دہشت گردوں سے کب تک ڈریں گے؟ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو یہ دو وہ دو اور کبھی کہا جاتا ہے دہشت گردوں سے مذاکرات کرو، اس دوران ریاست کہاں ہے؟ دہشت گردوں سے مذاکرات کیوں کیے جارہے ہیں؟۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آج دہشت گرد 2 بندے ماریں گے کل کو 5 مار دیں گے، پتہ نہیں ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں، ایک جج نے دہشت گردی کے واقعے پر رپورٹ دی لیکن اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔

سپریم کورٹ کے جج نے مزید ریمارکس دیے کہ لمبی داڑھی رکھنے سے بندہ مسلمان یا اچھا انسان نہیں بن جاتا، ہمارے ایک جج کو مار دیا گیا کسی کو پرواہ ہی نہیں۔

واضح رہے کہ 29 جنوری کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے میں اب تک امام مسجد اور اہلکاروں سمیت 101 افراد شہید ہوچکے ہیں، دھماکا عین نمازِ ظہر کے وقت ہوا جہاں حملہ آور پہلی صف میں موجود تھا۔

اطلاعات کے مطابق حملہ آور نمازیوں کے ساتھ تھانے کے مرکزی دروازے سے داخل ہوکر تین حفاظتی حصار عبور کرکے مسجد میں داخل ہوا اور خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

پشاور پولیس لائن مسجد دھماکا، خیبرپختونخوا پولیس احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکل آئی

خیبرپختونخوا پولیس کے اہلکاروں کی اجتماعی استعفوں کی دھمکی دے دی
اپ ڈیٹ 01 فروری 2023 07:24pm

پشاور میں پولیس لائن مسجد دھماکے کے خلاف احتجاج میں باوردی پولیس اہلکار سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ احتجاج میں مختلف مکتبہ فکر کے نمائندگان بھی شریک ہیں۔

مظاہرین کی جانب سے ”کے پی پولیس زندہ باد“ اور ”امن غواڑو“ کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ پولیس لائنز مسجد دھماکے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی جائے۔

دوسری جانب دھمکے کے خلاف مردان پولیس بھی سڑکوں پر نکل آٸی ہے۔

محکمہ صحت کے مطابق پشاور پولیس لائنز دھماکے میں شہداء کی تعداد 101 ہوگئی ہے، اسپتالوں میں 59 زخمی زیرِ علاج ہیں جن میں آٹھ کی حالت تشویش ناک ہے، جبکہ 51 کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

خیبرپختونخوا پولیس کے اہلکاروں کی اجتماعی استعفے کی دھمکی

خیبرپختونخوا میں پولیس فورس کے جونیئررینک فسران نے پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے کی مناسب تحقیقات نہ کروانے پرحکومت کو اجتماعی استعفے کی دھمکی دے دی۔

واٹس ایپ گروپ میں اس طرح کے پیغامات زیرگردش ہونے کے بعد اسپیشل برانچ کی جانب سے ڈی آئی جی پولیس اسپیشل برانچ، صوبائی افسران اور سی سی پی کو خط میں تفصیل بتائی گئی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ واٹس ایپ کے مختلف گروپس میں نامعلوم شخص کی جانب سے تحریری اور وائس میسجز چل رہے ہیں جن میں پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کیخلاف تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی کی تشکیل اور اصل حقائق منظرعام پرلا کرذمہ داران سے بدلہ لینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ بصورت دیگر جونیئررینک کے اہلکاروں کی جانب سے متعلقہ یونٹ میں اجتماعی طور پر استعفے جمع کروانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

خط میں تحریری پیغامات بھی نقل کیے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں۔

1- ہمارے جوانوں کے خون کا بدلہ نہ لیا گیا تو پوری کے پی پولیس ڈیوٹی چھوڑ دے گی اور سارے جوان ایک ہی دن ایک ہی ساتھ استعفے جمع کروائیں گے۔ (منجانب آل کے پی کے پولیس جونیئررینکس)

2- آپ سب کو ایک ہونا پڑے گا ورنہ روز یہ جنازے اٹھانے پڑیں گے۔(منجانب آل کے پی کے پولیس جونیئررینکس)

تیسرا پیغام پشتو زبان میں ہے جس کا ترجمہ خط میں یوں درج ہے:

3- یہ تمام دوستوں کیلئے ایک واٹس ایپ میسج ہے جس کو زیادہ سے زیادہ اپنے واٹس ایپ گروپس میں شیئرکرنے کا کہاگیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ کل ہونے والے کھیل کی شفاف انکوائری کے لیے جے آئی ٹی نہ بنائی گئی اور پریس کانفرنس میں حقائق کو منظرعام پرنہ لایا گیا اور اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور اسی طرح کاکوئی دوسرا واقعہ پیش آیا تو تقریباً ایک لاکھ 6 ہزار پولیس اہلکاروں میں سسے جونیئررینکس کے ایک لاکھ پولیس اہلکار ایک ہی دن ایک ہی وقت میں اجتماعی استعفے لکھ کراپنے اپنے یونٹ میں جمع کروائیں گے۔ افسوس ان سے رکشوں والے، نانبائی اور ٹرانسپورٹرزبہترہیں جو کم از کم اپنے حق کیلئے بطور احتجاج نکلتے ہیں۔ وہ بھی دو تین تنخواہیں نہیں لیں گے لیکن یہ کھیل مزید برداشت نہیں کریں گے۔

واضح رہے کہ پیر30 جنوری کو نمازظہرکے دوران پشاورمیں پولیس لائن میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کا عمل رات کو بھی جاری رہا۔ ریسکیو اہلکاروں نے مزید لاشیں ملبے سے نکالی ہیں جس کے بعد شہید ہونے والوں کی تعداد 101 ہوگئی ہے۔

ٹی ٹی پی پاکستان میں دوبارہ کیسے منظم ہوئی

'کچھ گروپ افغانستان گئے لیکن محسود یہیں رہے، پی ٹی ائی کی شکل میں سپورٹ، مالی امداد ملی'
شائع 01 فروری 2023 10:32am

پشاورپولیس لائنزکی مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں 100 سے زائد قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ سیز فائرکا فیصلہ درست تھا کیونکہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے مقتدر حلقے ایسے خدشات کا اظہار کر رہے تھے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اب پھر سے منظم ہو گی۔

آج نیوز کے پروگرام، ’فیصلہ آپ کا ’میں میزبان عاصمہ شیرازی نے ایسے ہی سوالوں کا جواب جاننے اور موجودہ فضا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے مستقبل پربات کرنے کے لیے خیبرپختونخوا کے سینیئرصحافیوں فخرکاکاخیل، محمود جان بابر اورعادل شاہ زیب کو مدعو کیا جو ان معاملات پرگہری نظررکھتے ہیں۔

پشاوردھماکے کے بعد گزشتہ روزایوان میں کی گئی تقاریراور ماضی میں عمران خان کی جانب سے سیز فائراور طالبان کے فیصلے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے عادل شاہ زیب کا کہنا تھا کہ اے پی ایس کے بعد یہ دوسرا بڑا دہشتگردی کا واقعہ تھا۔ 100 گھروں کی بربادی کا ذمہ دار پالیسیوں کوقراردیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے جیسے لوگ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ افغانستان میں طالبان آگئے ہیں اور ہمارے یہاں کاکلعدم تنظمیں ٹی ٹی پی کی صورت میں مضبوط ترہوں گی کیونکہ یہ 20 سال امریکا کیخلاف افغان طالبان کی لڑائی میں شامل رہے ہیں۔ طلبان نے ملا ہبت اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی ہوئی ہےاور ٹی ٹی پی والے ان کا حکم مانتے ہیں، افغان طالبان اسی لیے کھل کران واقعات کی مذمت نہیں کررہے ۔ چیزیں واضح تھیں لیکن ہمارے سیاستدان اور پالیسی ساز سوئے رہے، ہم چیخ چیخ کرکہتے رہے کہ سوات، شانگلہ ، بونیرمیں ان کی واپسی ہوچکی ہے، لوگوں نے مدد کی اہیل کی لیکن سابق وزیراعظم (عمران خان )سمجھتے تھے کہ طالبان غلامی کی زنجیریں تڑوارہے ہیں۔

عادل شاہ زیب نے شیخ رشید کی بطوروزیرداخلہ گزشتہ سال 22 فروری کی تقریرکا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دہشتگری کے واقعات میں اضافے کا پتہ تھا تو کس مینڈیٹ کے تحت آپ نے ٹی ٹی پی سے معاہدہ کیا۔

ری گروپنگ سے متعلق وفاقی اور صوبائی حکومت کی بےخبری سے متعلق سوال پرفخرکاکا خیل نے کہا کہ اگست 2022 میں یہ سوات کے اندرآئے، جنرل فیض اور پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ مذاکرات کی بات شروع کی گئی، ایڈجسٹمنٹ کے تحت 100 یا زائد طالبان کو رہا کیا گیا، سوات ، باجوڑ اور ملحقہ علاقون میں یہ آئے تو لوگ سڑکوں پرنکل آئے جس کے بعد اس معاملے میں کمی دیکھی گئی لیکن موجودہ معاملات میں ہمیں توجہ دینی چاہیئے کہ امریکی ڈیفنس کمیٹی کا خود ماننا ہے کہ وہ افغانستان میں 7 ارب ڈالرکا اسلحہ چھوڑ کرگئے ہیں، دوسری جانب خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت نے صوبے کو ساڑھے 3 ارب کا مقروض بنادیا ہے۔

پشاور دھماکے کی ذمہ داری لینے پر ایک جانب ٹی ٹی پی کی جانب سے انکار کیا جارہا ہے تو دوسری جانب اسی گروپ کے کچھ لوگ اسے قبول کررہے ہیں۔ یہ صورتحال نومبر1989میں لے جاتی ہے، 40 سال کہا جاتا رہا روس کیخلاف جہاد ہے پھر خانہ جنگی شروع ہوئی اور ہھر امریکا آیا،20 سال سے کہا گیا جب تک امریکا افغانستان میں ہے پاکستان میں امن نہیں ہوسکتا۔ ٹی ٹی پی کے کچھ جہادی گروپوں کا ماننا ہے کہ امریکا چلا گیا اورپاکستان کبھی اس جنگ میں اس کا اتحادی نہیں رہا تو اب ہمیں شریعت کے تحت وقت گزارنا چاہیے لیکن دوسری جانب جہادیوں کا ماننا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہے، کفری نظام ہے تو اب ہمیں پاکستان کو بھی شکست دینی ہوگی۔ ان معاملات پر ہماری نظر ہونی چاہیے۔

محمود جان بابرسے دھماکے کا نتیجہ سیکیورٹی لیپس اور طالبان کے اپنے اندر تقسیم کا شاخسانہ ہونے سے متعلق پوچھا گیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ واضح ہے کہ یہ سیکیورٹی لیپس تھا اور عین ممکن ہے آئی اور چیف سیکرٹری کوتبدیل کردیا جائے۔ یطالبان کے معاملے پر یکسوئی نہیں ہے، یہ کہاجاتا رہا کہ ہم ان سے نمٹ چکے ہیں ، آپریشن کرچکے ہیں لیکن 2014 میں اے پی ایس حملے کے بعد جب آپریشن ہوا تو5 گروپ بنے تھے سب سے بڑا گروپ افغانستان چلاگیا،ایک نے تبلیغ کا راستہ اختیار کیا،جماعت الاحرار والے بھی افغانستان چلے گئے لیکن محسود یہیں رہے تو یہ کہنا کہ سب باہرسے آئے ہیں، درست نہیں کیونکہ زیادہ تر یہیں تھے اور خاموش تھے۔ کچھ لوگ یہاں آئے لیکن سب کے سب باہرسے نہیں آئے۔

عمران خان کی جانب سے پاکستان میں 5 سے 7 ہزار افراد کی آمد اور ان کی ری سیٹلمنٹ والے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے محمود جان بابرنے مزید کہا کہ گزشتہ سال کے اختتام پرمینافغانستان گیا تو ٹی ٹی پی کے لوگوں سے بات ہوئی، مذاکرات کرنے والوں کے علاوہ بہت سے دیگرگروپ ان سے ناراض تھے کہ پاکستان سے بات نہ کریں،ٹی ٹی پی کل کے واقعے کی ذمہ داری لیتی تو اس کا قدکاٹھ بڑھ جاناتھا لیکن انہوں نے فاصلے پررہنے کو ترجیح دی جس کی وجوہات ہیں، ان سے ہٹنے والے لوگوں کے کچھ دوست افغانستان میں مارے گئے اور انہوں نے کہا کہ اب ہم اس کا بدلہ پاکستان سے لیں گے۔

عادل شاہ زیب کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پالیسی ساز اداروں کو پارلیمان میں آکر واضح بتانا چاہیے کہ کیا افغان طالبان اور ریاست پاکستان کیخلاف لڑنے والے طالبان میں ابھی بھی گڈ اور بیڈ کی تفریق ہے یا ایک ہی سکے کے 2 رخ ہیں۔ کے پی میں پی ٹی آئی حکومت تھی تو کتنے ہی ایسے واضح بیانات آئے کہ وزیراعلٰی سمیت کئی وزراء اور ایم پیز طالبان کو بھتہ دے رہے ہیں تو انہوں نے لوگوں کی حفاظت کیسے کرنی تھی۔ اگر ملک کا وزیرداخلہ آج کرسوال اٹھائے کہ طالبان سے بات کا فیصلہ کس نے کیا تو عمران خان تو اس بات کو قبول کررہے ہیں کہ فیصلہ ان کا تھا لیکن کیا قومی قیادت کو اس حوالےسے اعتمادمیں لیا گیا، آج کورکمانڈر کانفرنس میں پی ٹی آئی نہیں تھی تو اس حوالے سے تمام قیادت کو آن بورڈ لیا جائے۔

صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سےمتعلق بات کرتے ہوئے عادل شاہ زیب نے کہا کہ معاشی صورتحال اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال دیکھتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو بھول ہی جائیں۔ پی پی اور ن لیگ کو بھی دھمکیاں مل چکی ہیں تو ایک آدھ جلسے میں ایسا واقعہ ہوجاتا ہے تو ان کے ووٹرزہی باہر نہیں نکلیں گے۔ فرنٹ لائن پرجو پولیس ان کیخلاف لڑ رہی ہیں ان کے پاس اپنے تھانے تک نہیں ہیں اور وہ اسکولوں میں پڑے ہوئے ہیں۔

کالعم ٹی ٹی پی کے ساتھ سیزفائرکے معاہدے کے پس پردہ محرکات کے حوالے سے فخر کاکا خیل نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرت میں ناکامی کی وجہ یہی تھی کہ پی ٹی آئی اس تمام عمل میں کمزور گراؤنڈ پر کھیلتی رہی اور اندرونی حلقوں کا مانناتھا کہ ملا کنڈ سمیت ملحقہ علاقے ٹی ٹی پی کے حوالے کردیں گے۔ طالبان کو پی ٹی آئی کی شکل میں علی الاعلان سپورٹرز اورمالی امداد ملی۔ ڈھنگ کی حکومت ہوتی تو پی ٹی آئی کیخلاف یہی کیس بناتی کیونکہ ثبوت موجود ہیں، پی ٹی آئی نے اس سے انکار نہیں کیا اور ہم نے یہ بھی دیکھا کہ میڈیا پر آکرپی ٹی آئی کے لوگ طالبان کو اخلاقی سپورٹ دے رہے تھے۔

دھماکے کیلئے سہولت کاری کے سوال پرمحمود جان بابرکا کہنا تھا کہ ان دہشتگردوں، خود کش حمہ آوروں کو پرائیویٹ لگژری گاڑیوں میں لایا جاتا ہے جنہیں روکنے کا تصورہی نہیں کیا جاتا کیونکہ دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کسی کی ہیں،تو مسجد دھماکے میں جو بندہ اندرآیا دانستہ یا نادانستہ طور پر پولیس والے استعمال ہوئے ہیں۔ اندررہنے والے سویلین بھی دانستہ یا نادانستہ استعمال ہوئے۔ یہاں سیکیورٹی صبح 8 سے شام 5 تک الرٹ رہنے کے بعد آسان باش اورچیک پوسٹیں بھی ہٹ جاتی تھیں اور گیٹ پر بھی ایک یا دوسپاہی ہوتے تھے کہ افسرتو چلے گئے، یہ پولیس کا خیال تھا لیکن دہشتگردوں نے اس کمزوری کو استعمال کیا۔ بیرکوں میں بھی ہر قسم کے سپاہی رہتے ہیں، شام کو ان کے دوست بھی پاس آتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2013 اور2014 میں بھی اسی قسم کے حالات تھے، کرانا چاہیں تو الیکشن تو ہوسکتے ہیں کیونکہ ایسا نہیں کہ دھماکے تسلسل سے ہورہے ہیں لیکن الیکشن اگرنہ ہوں تو بہترہیں کیونکہ پولیس سیکیورٹی دے گی اور انہیں ہی ٹارگٹ کیا جاسکتا ہے، پولیس کا مورال ڈاؤن ہے۔

خودکش حملہ آور کا سر اور کچھ اعضا ملے ہیں، آئی جی خیبرپختونخوا

سی سی ٹی وی فوٹیج سے دھماکے کی وجوہات کا تعین کررہے ہیں
شائع 01 فروری 2023 09:57am
آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری
آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری

آئی جی خیبرپختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا ہے کہ پولیس لائنز میں ہونے والا دھماکا خودکش تھا، خودکش حملہ آور کا سر اور کچھ اعضا ملے ہیں۔

آئی جی خیبرپختونخوا نے بتایا کہ خودکش حملہ آور کے سیمپل ڈی این اے ٹیسٹنگ و فارنزک کے لیے بھیجوا دیے ہیں، سی سی ٹی وی فوٹیج سے دھماکے کی وجوہات کا تعین کررہے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشنز ہونے چاہئیں، دہشت گردوں کا کنٹرول کسی علاقے پر اس طرح نہیں ہے جس طرح دس بارہ سال پہلے تھا۔

معظم جاہ انصاری نے کہا کہ چاہتے ہے اگر یہاں سے کوئی دہشت گرد بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے تو معاہدے کی بنیاد پر افغان حکومت کو اسے ہمارے حوالے کرنا چاہیئے۔

آئی جی خیبر پختونخوا کا مزید کہنا تھا کہ بڑے آپریشن کے لئے پوری آبادی کے انخلاء کی بات ہوگی تو ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

وائٹ ہاؤس کی پشاور دہشتگرد حملے کی شدید مذمت، لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار

حملے میں شہدا کی تعداد 100تک پہنچ گئی
شائع 01 فروری 2023 08:36am
دہشتگردی ناقابل دفاع ہے،نمازیوں کو نشانہ بناناناقابل معافی عمل ہے،  ترجمان ایڈرین واٹسن - تصویر/ روئٹرز
دہشتگردی ناقابل دفاع ہے،نمازیوں کو نشانہ بناناناقابل معافی عمل ہے، ترجمان ایڈرین واٹسن - تصویر/ روئٹرز

وائٹ ہاؤس کی جانب سے پشاور میں پولیس لائنز میں مسجد پر دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان ایڈرین واٹسن نے کہا ہے کہ یہ افسوسناک اور دل دہلا دینے والی خبر ہے امریکا دہشت گرد حملے کی مذمت کرتا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں جبکہ دہشت گردی ناقابل دفاع ہے اور نمازیوں کو نشانہ بنانا ناقابل معافی عمل ہے۔

ترجمان ایڈرین واٹسن نے مزید کہا کہ امریکا پاکستان کی بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

خیال رہے کہ دہشت گرد حملے میں شہدا کی تعداد 100تک پہنچ گئی ہے۔

پشاور: پولیس لائنز دھماکے کا مقدمہ درج

دھماکے میں 10 سے 15 کلو باردوی مواد استعمال کیا گیا، معظم جاہ
اپ ڈیٹ 01 فروری 2023 07:19pm
فوٹو۔۔۔۔۔ اسکرین گریب
فوٹو۔۔۔۔۔ اسکرین گریب

پشاور میں پولیس لائنز دھماکے کا مقدمہ سی ٹی ڈی تھانہ ایس ایچ او تھانہ شرقی نعیم حیدر کی مدعیت درج کرلیا گیا، ایف آئی آر میں دہشت گردی کے دفعات شامل کی گئی ہیں۔

بمبار ممکنہ طور پر بارودی مواد تھوڑا تھوڑا کرکے لایا، آئی جی

آئی جی خیبرپختونخوا معظم جاہ کا کہنا ہے کہ پشاور پولیس لائنز مسجد میں ہونے والے دھماکے میں 10سے 15 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا، حملہ آور کے سہولت کاروں کا پتا لگارہے ہیں۔

آئی جی کے پی پولیس نے پشاورمیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ اموات ملبےتلےدبنےکی وجہ سے ہوئیں، کالعدم تحریک طالبان نے پہلے ذمہ داری لینے کااعلان کیا اور پھرکہا کہ دھماکہ ہم نے نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلٰی کے حکم پرتحقیقات کے لیے انٹرایجنسی جے آئی ٹی تشکیل دی جارہی ہے جس میں پولیس، حساس ادارے اور دیگر تحقیقاتی اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے۔

آئی جی نے بتایا کہ تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی سینیئر ڈی آئی جی کریں گے جو پشاور پولیس کا حصہ نہیں ہوں گے۔

آئی جی خیبر پختونخوا کے مطابق یہ پولیس لائن پانچ چھ سو لوگوں اور ایک ایس پی کے لیے بنی تھی، آج یہاں چھ ڈی آئی جیز کے دفاتر ہیں جب کہ چھ مختلف یونٹس یہاں موجود ہیں۔

آئی جی کے مطابق اس پولیس لائن کی کوئی سینٹرل کمانڈ یہاں نہیں تھی، اس لیے تلاشی کا میکینزم گیٹ کی حد تک موجود تھا۔

معظم جاہ کا کہنا تھا کہ پولیس لائنز میں کینٹینیں بھی ہیں اور تعمیراتی کام بھی چل رہا تھا اس دوران تھوڑا تھوڑا کر کے یہاں بارودی مواد لایا گیا۔

آئی جی کے مطابق حملہ آور پیر کو ہی جیکٹ پہن کر نہیں داخل ہوا بلکہ سامان تھوڑا تھوڑا کر کے یہاں لاتا رہا۔

انہوں نے کہا کہ خودکش حملہ اس دوران سائلین کے روپ میں یا مہمانوں کے روپ میں داخل ہوا، البتہ سکیورٹی کی ناکامی کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

پشاور دھماکے سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ ہمارا اندازہ ہے بارودی مواد 10 سے 12 کلو تک ہو سکتا ہے۔ دھماکے کے ساک کی وجہ سے پوری چھت نیچے آئی، ملبے تلے دبنے کے باعث ذ یادہ جانی نقصان ہوا۔

آئی جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ اس بات کی مکمل تحقیق کی جائے گی کہ خودکش حملہ آور کے سہولت کار کون تھے اور وہ کس طرح یہاں پہنچا۔

پشاور دھماکا : ریسکیو آپریشن مکمل کرلیا گیا

اموات 100 ہوگئیں، 185 افراد زخمی
اپ ڈیٹ 31 جنوری 2023 06:32pm
فوٹو۔۔۔۔ اے ایف پی
فوٹو۔۔۔۔ اے ایف پی

پشاورکی پولیس لائنز مسجد میں گزشتہ روز ہونے والے دھماکے کے بعد ریسکیو آپریشن مکمل کرلیا گیا ہے۔

ریسکیو ایمرجنسی آپریشن آفسر اویس آفریدی کا کہنا ہے کہ پولیس لائنز ریسکیو آپریشن مکمل ہوگیا ہے، ملبے تلے دبے تمام افراد کو نکال لیا گیا، آخری دو لاشوں کی شناخت نہیں ہورہی تھی جنہیں خیبر میڈیکل کالج منتقل کردیا ہے جب کہ مسجد کے شہید ہونے والے حصے میں سرچ کا عمل جاری ہے۔

اویس آفریدی کے مطابق ڈیٹ باڈی یا مسنگ فرد کی تلاش میں تاحال کوئی نہیں آیا، سرچ کے دوران چند اعضاء ملے ہیں جنہیں لیبارٹری بھجوادیا گیا ہے۔

اس سے قبل ترجمان ریسکیو بلال نے آج نیوز سے گفتگومیں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ریسکیو 1122 کو دوپہر1 بج کر 18منٹ پر کال موصول ہوئی اور 4 منٹ میں ایمبولینسز موقع پر پہنچ گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ ریسکیو 1122 نے 146 افراد کو اسپتال منتقل کیا جن میں 49 زخمی اور 54 شہداء شامل تھے۔

ترجمان ریسکیو نے مزید بتایا کہ ریسکیو آپریشن میں 37 آپریشنل گاڑیوں اور 168 اہلکاروں نے حصہ لیا، شہداء کے جسد خاکی آبائی علاقوں میں منتقل کردیے گئے ہیں، پشاور، نوشہرہ اور خیبر کی ٹیموں نے حصہ لیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز پشاور میں پولیس لائن کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں اب تک 93 افراد جاں بحق اور 185 افراد زخمی ہوئے۔

پشاور دھماکے میں ضلع چارسدہ کے تقریبا 18 افراد شہید اور 2 زحمی ہوئے۔

1: اے ایس آئی رضوان اللہ ولد محمد اللہ سکنہ عمراباد نزد تبلیغی مرکز علاقہ تھانہ سٹی۔

2: اے ایس آئی لیاقت علی ولد ربنواز سکنہ پڑانگ بابا خیل علاقہ تھانہ سٹی

3: کانسٹیبل شہاب ولد آمان اللہ سکنہ سافر خیل علاقہ تھانہ پڑانگ

4: سابقہ پی اے چارسدہ عبد الودود ولد نامعلوم سکنہ بشیر آباد علاقہ پڑانگ

5: کانسٹبل خالد ولد بختیار سکنہ قائد آباد نمبر1 علاقہ تھانہ سٹی

6: کانسٹبل نسیم شاہ ولد معین شاہ سکنہ سکول کورونہ لونڈہ علاقہ تھانہ نستہ

7: کانسٹبل گل شرف ولد خان زادہ سکنہ یوسف کلے امیر آباد علاقہ تھانہ مندنی

8: کانسٹبل افتحار ولد امیر سید سکنہ خان آباد امیراباد علاقہ تھانہ عمرزئی

9: کانسٹبل ابن امین ولد حاجی فضل کریم سکنہ خان آباد امیراباد علاقہ تھانہ عمرزئی

10:ایل ایچ سی اشفاق ولد ماصل خان سکنہ ڈاگی مکرم خان علاقہ تھانہ ترناب

11:ایس آئی حیات شاہ ولد مہر شاہ سکنہ اوچہ ولہ علاقہ تھانہ شبقدر

12:ایس آئی مراد خان ولد ششتی گل سکنہ غونڈہ خیل علاقہ مندنی

13:ڈی ایس پی ربنواز خان ولد امیر نواز سکنہ چاندی چوک تنگی علاقہ تھانہ تنگی نمازہ جنازہ ٹائم آج 14:00بجے

14:نورالحق ولد محمدی گل سکنہ شیخ ولی کلے علاقہ تھانہ تنگی

15: کانسٹبل ذولفقار ولد ریدی گل سکنہ غریب مارکیٹ علاقہ تھانہ پڑانگ نمازہ جنازہ ٹائم 1400بجے

16: کانسٹبل داؤد ولدآمان اللہ سکنہ درگئی علاقہ تھانہ سرڈھیری نمازہ جنازہ ٹائم 1400بجے

17:امجد ولد شاہ جی گل سکنہ ترلاندی علاقہ تھانہ نستہ

18: کانسٹبل سلیمان ولد شمروز خان سکنہ پڑانگ علاقہ تھانہ پڑانگ نمازہ جنازہ ٹائم 1400بجے۔

زحمی

1: ابرہیم شاہ ولد اکرم شاہ سکنہ غریب آباد علاقہ تھانہ سٹی (سپرڈنٹ ٹیلی کمیونیکیشن)

2: عبدالرفیع ولد خافظ صاحب علاقہ تھانہ پڑانگ (اکاؤنٹ برانچ ٹیلی کمیونیکیشن)

شہیدوں میں ایک ڈی ایس پی ،ایک سپرڈنٹ، دو سب انسپکٹر، دو اے ایس آئی، ایک حوالدار اور11 کانسٹیبلان نے جام شہادت نوش کیا ۔

پولیس لائنز میں حملہ آور کس طرح داخل ہوا، تحقیقات کی جارہی ہیں، رپورٹ

پشاور دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم کو پیش
شائع 31 جنوری 2023 08:59am
فوٹو۔۔۔۔۔۔ الجزیرا
فوٹو۔۔۔۔۔۔ الجزیرا

پشاور دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم شہباز شریف کو پیش کردی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس لائنز میں ہونے والا دھماکا خودکش تھا، پولیس لائنز میں حملہ آور کس طرح داخل ہوا، اس بات کی تحقیقات کی جارہی ہیں، جائے وقوعہ سے خودکش حملے کے شواہد ملے، سی سی ٹی وی فوٹیج سے تحقیقات جاری ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مسجد کے پلر گرنے سے چھت منہدم ہوئی، زیادہ نقصان چھت منہدم ہونے سے ہوا، ناقص سیکیورٹی اقدامات پر اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔

پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کی رپورٹ تیار

پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کی رپورٹ پولیس نے تیار کرلی۔

رپورٹ کے مطابق دھماکا ایک بج کر 15 منٹ پر ہوا، دھماکا مسجد کے مرکزی ہال میں ہوا، مسجد کے ہال میں 300 سے 350 افراد کی گنجائش ہوتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق دھماکے سے مسجد ہال کی چھت گرگئی، پولیس لائنزمیں ایلیٹ فورس اور سی ٹی ڈی سمیت مختلف محکمے ہیں، 63 لاشیں اور 157 زخمیوں کو ملبے سے نکالا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاک آرمی اور ریسکیو کی مدد سے آپریشن جاری ہے، واقعے میں دھماکا خیز مواد کا استعمال کنفرم ہوا ہے، خودکش حملے کے ہونے کو رول آوٹ نہیں کیا جاسکتا، مختلف ٹیموں کی انویسٹی گیشن جاری ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد 83 ہوگئی ہے جبکہ 170 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

پشاور دھماکا: خیبرپختونخوا میں ایک روزہ سوگ کا اعلان

آج صوبے بھر میں قومی پرچم سرنگوں رہے گا، اعظم خان
شائع 31 جنوری 2023 08:41am
فوٹو۔۔۔۔ رائٹرز
فوٹو۔۔۔۔ رائٹرز

نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اعظم خان نے پشاور دھماکے پر ایک روزہ سوگ کا اعلان کردیا۔

اعظم خان کا کہنا ہے کہ آج صوبے بھر میں قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔

اعظم خان نے کہا کہ صوبائی حکومت شہدا کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے، متاثرہ خاندانوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد 83 ہوگئی ہے جبکہ 170 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کی رپورٹ تیار

دھماکا ایک بج کر 15 منٹ پر مسجد کے مرکزی ہال میں ہوا، رپورٹ
اپ ڈیٹ 31 جنوری 2023 09:01am
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔ اے ایف پی
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔ اے ایف پی

پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کی رپورٹ پولیس نے تیار کرلی۔

رپورٹ کے مطابق دھماکا ایک بج کر 15 منٹ پر ہوا، دھماکا مسجد کے مرکزی ہال میں ہوا، مسجد کے ہال میں 300 سے 350 افراد کی گنجائش ہوتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق دھماکے سے مسجد ہال کی چھت گرگئی، پولیس لائنزمیں ایلیٹ فورس اور سی ٹی ڈی سمیت مختلف محکمے ہیں، 63 لاشیں اور 157 زخمیوں کو ملبے سے نکالا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاک آرمی اور ریسکیو کی مدد سے آپریشن جاری ہے، واقعے میں دھماکا خیز مواد کا استعمال کنفرم ہوا ہے، خودکش حملے کے ہونے کو رول آوٹ نہیں کیا جاسکتا، مختلف ٹیموں کی انویسٹی گیشن جاری ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے میں اب تک شہید ہونے والوں کی تعداد 83 ہوگئی ہے جبکہ 170 سے زائد افراد زخمی ہیں۔

پولیس لائنز میں حملہ آور کس طرح داخل ہوا، تحقیقات کی جارہی ہیں، رپورٹ

پشاور دھماکے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم شہباز شریف کو پیش کردی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پولیس لائنز میں ہونے والا دھماکا خودکش تھا، پولیس لائنز میں حملہ آور کس طرح داخل ہوا، اس بات کی تحقیقات کی جارہی ہیں، جائے وقوعہ سے خودکش حملے کے شواہد ملے، سی سی ٹی وی فوٹیج سے تحقیقات جاری ہیں۔

رپورٹ کے مطابق مسجد کے پلر گرنے سے چھت منہدم ہوئی، زیادہ نقصان چھت منہدم ہونے سے ہوا، ناقص سیکیورٹی اقدامات پر اعلیٰ تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔

وزیر دفاع نے بنوں اور پشاور واقعہ سکیورٹی حکام کی ناکامی قرار دیدیا

افغانستان اپنی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے دیں، خواجہ آصف
شائع 30 جنوری 2023 11:41pm
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف۔ فوٹو — پی آئی ڈی
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف۔ فوٹو — پی آئی ڈی

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ بنوں اور پشاور واقعہ سکیورٹی حکام کی ناکامی ہے۔

ایک بیان میں خواجہ آصف نے کہا کہ پشاور کا واقعہ بہت اندوہناک ہے، ریاست دہشتگردی کے خلاف پوری قوت سے مقابلہ کرے گی، جس ارادے کے ساتھ آٹھ سال پہلے جنگ لڑی تھی ویسے اب لڑنے کی ضرورت ہے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ گزشتہ چار سال میں خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال متاثر ہوئی، بنوں اور پشاور واقعہ سکیورٹی حکام کی ناکامی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نیٹو کے افغانستان سے انکلاء کے بعد شرپسند عناصر نے پاکستان کا رخ کیا ہے، کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد ایسے عناصر کو سیٹل کیا گیا۔

خواجہ آصف افغان حکام سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان اپنی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہونے دیں، دوحہ مذاکرات کے تحت افغان حکومت معاہدے کی پابند ہے کہ ان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔

سانحہ پشاور: نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا صوبے میں ایک روزہ سوگ کا اعلان

صوبائی حکومت متاثرہ خاندانوں کو تنہا نہیں چھوڑے گی، اعظم خان
شائع 30 جنوری 2023 11:13pm
فوٹو — رائٹرز
فوٹو — رائٹرز

نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمد اعظم خان نے کل صوبے بھر میں ایک روزہ سوگ کا اعلان کردیا۔

نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ کل پورے صوبے میں قومی پرچم سرنگوں رہے گا، شہداء کے لواحقین کے غم میں برابر کےشریک ہے۔

اعظم خان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت متاثرہ خاندانوں کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔

واضح رہے کہ پشاور میں ملک سعد خان پولیس لائنز کی مسجد میں نمازِ ظہر کے دوران خودکش دھماکہ ہو اجس کے نتیجے میں اب تک 59 افراد شہید اور کم از کم 157 زخمی ہوئے۔

پشاور خودکش دھماکہ: کب، کیا اور کیسے ہوا؟

پشاور دھماکے میں اب تک 50 شہادتیں ریکارڈ ہوچکی ہیں اور 150 سے زائد زخمی ہیں۔
شائع 30 جنوری 2023 10:08pm
وزیراعظم شہابز شریف کا آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ہمراہ لیڈی ریڈنگ اسپتال کو دورہ (تصویر بزریعہ اے ایف پی)
وزیراعظم شہابز شریف کا آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ہمراہ لیڈی ریڈنگ اسپتال کو دورہ (تصویر بزریعہ اے ایف پی)

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ملک سعد خان پولیس لائنز کی مسجد میں نمازِ ظہر کے دوران خودکش دھماکہ ہو اجس کے نتیجے میں اب تک 59 افراد شہید اور کم از کم 157 زخمی ہوگئے۔

عینی شاہدین اور سیکیورٹی حکام کے مطابق خود کش حملہ آور فرض نماز کیلئے کھڑی ہونے والی جماعت کے دوران پہلی صف میں موجود تھا، جس نے امام کے تکبیر کہتے ہی خود کو اُڑا لیا۔

دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس سے مسجد کی تمام کھڑکیاں اور دورازے ٹوٹ گئے، چھت کا کچھ حصہ منہدم ہوا اور مسجد کا ایک حصہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔

مسجد میں دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور زخمیوں کو مختلف اسپتالوں میں پہنچانا شروع کر دیا۔

لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق سو سے زائد زخمیوں کو اسپتال لایا گیا ہے جن میں سے کچھ کی حالت تشویش ناک ہے۔

ترجمان کے مطابق زخمیوں میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ترجمان نے 59 افراد کی ہلاکت اور 157 زخمی افرادکو طبی امداد دیے جانے کی تصدیق کی ہے۔

ملبے تلے موجود نمازی

جہاں خود کش دھماکے میں کئی افراد شہید اور زخمی ہوئے، وہیں گرنے والی چھت کے ملبے تلے بھی بہت سے لوگ دب گئے، جنہیں نکالنے کیلئے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا۔

ملبے تلے دبے افراد میں سے چار لاشوں اور دو زخمیوں کو تقریباً ساڑے آٹھ گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد نکال لیا گیا۔ ریسکیو آپریشن میں بھاری مشینری استعمال کی گئی لیکن کام مزید زندہ لوگوں کی موجودگی کے امکان کے باعث کام احتیاط سے کیا جارہا ہے جس سے آپریشن تاخیر کا شکار ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور دھماکہ: کئی افراد اب بھی ملبے تلے موجود، ’نیچے سے آوازیں آرہی ہیں‘

ریسکیو حکام کی جانب سے نکالے گئے زخمیوں اور شہیدوں کی لاشوں کو پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس بھیجا گیا، جہاں ان کی فہرست مرتب کی گئی جو اسپتال کے دروازوں پر آویزاں کردی گئی۔

دھماکے کے فوری بعد لیڈی ریڈنگ اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور قریبی شاہراہوں کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیاگیا تاکہ زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے میں دشواری نہ ہو۔

زخمیوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ اسپتال انتظامیہ، پولیس اور وزیراعظم نے شہریوں سے خون کے عطیات دینے کی اپیل کی۔

دوسری جانب ملک کی سیاسی قیادت اور دیگر ممالک نے خودکش حملے کی مذمت کی ہے۔

خودکش حملے کے بعد اسلام آباد، سندھ اور بلوچستان میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے۔

وزیراعظم کا اظہار برہمی

وزیراعظم شہباز شریف آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور دیگر وفاقی وزراء کے ہمراہ پشاور پہنچے اور آئی جی خیبر پختونخوا پر برہمی کا اظہار کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ کہا کہ پولیس لائنز میں داخلےکا ایک ہی گیٹ ہے تو خودکش حملہ آور کیسے پولیس لائنز میں داخل ہوگیا؟

پولیس لائنز، ایک محفوظ سمجھا جانے والا علاقہ

پشاور کی پولیس لائنز شہر کا اہم ترین علاقہ ہے، جہاں کئی اہم سرکاری عمارتوں کے علاوہ عدالتیں بھی ہیں۔

ملبے تلے مزید لوگوں کے دبے ہونے کا اندیشہ

ریسکیو سروس 1122 کے ترجمان بلال فیضی کا کہنا ہے کہ دھماکے کے بعد ملبے کے نیچے 10 سے 15 افراد کے دبے ہونے کا اندیشہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کنکریٹ کی چھتیں کاٹ کر ملبے کے نیچے موجود افراد تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پہلی ترجیح انسانی جان بچانا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ریسکیو 1122 کے پاس ایسے کیمرے موجود ہیں جن کی مدد سے ملبے کے نیچے دیکھا جا سکتا ہے، کوئی زخمی نظر آجائے تو اسی کیمرے کی مدد سے اس سے بات کرنا بھی ممکن ہے۔

ان کے مطابق آڈیو سینسرز کی مدد سے ملبے کے نیچے آوازیں سننے کی بھی کوشش کی جاتی ہے، اس سے دل کی دھڑکن بھی سنی جا سکتی ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ ریسکیو آپریشن جلد مکمل کر لیا جائے گا۔

گورنر کو مزید اموات کا اندیشہ

خیبر پختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا۔ دورے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مسجد کے ملبے میں لوگوں کے دبے ہونے کا اندیشہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے واقعے کی حکومت کسی کو بھی اجازت نہیں دے سکتی۔

خود کش حملے کے امکان کو مسترد نہیں کر سکتے: سی سی پی او

پشاور کے کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) محمد اعجاز خان کا کہنا تھا کہ مسجد میں خود کش حملے کے امکان کو مسترد نہیں کر سکتے۔ صورتِ حال کلیئر ہونے پر دھماکے کی نوعیت کا اندازہ ہو سکے گا۔

صوبے کے گورنر حاجی غلام علی کے ہمراہ دھماکے کے مقام کا دورہ کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ نماز کے وقت مسجد میں لگ بھگ 400 افراد ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس لائنز میں دھماکہ ہو رہا ہے تو اس سے ایسا لگتا ہے کہ کوئی سیکیورٹی لیپس ہوگا اسی لیے دھماکہ ہوا۔

دھماکے سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مسجد کا پرانا ہال گر چکا ہے اور اس کی نئی عمارت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

’انتخابات سے قبل دہشت گردی کے واقعات معنی خیز ہیں‘

پاکستان کے وزیرِ خارجہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پشاور میں خودکش حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضمنی اور عام انتخابات سے قبل دہشت گردی کے واقعات معنی خیز ہیں۔

ایک بیان میں انہوں نے عندیہ دیا کہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے ساتھ ساتھ سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔

انہوں نے زور دیا کہ نیشنل ایکشن پلان ہی دہشت گردوں کا علاج ہے، اس پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔

دھماکے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات جاری

وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک بیان میں ان کا مزید کہنا تھا کہ وفاقی ادارے خیبر پختونخوا کی حکومت کی مکمل معاونت کر رہے ہیں۔

انہوں نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد انسانیت اور اسلام کے دشمن ہیں۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ دہشت گردی کو شکست دیں گے اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔

’پولیس کو ہدف بنایا جا رہا ہے‘

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پولیس کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ دو چار ہفتے قبل بنوں میں سی ٹی ڈی کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا تھا وہاں بھی پولیس کے اہلکار ہی موجود تھے۔

نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ نیکٹا کو ایک بار پر متحرک کرنے کی ضرورت ہے جس طرح 10 سال قبل دہشت گردی پر قابو پایا گیا تھا۔

ان کے مطابق مساجد میں دہشت گردی سے مذہب کا چہرہ مسخ ہوتا ہے۔ اس طرح کے واقعات اسلام اور اسلامی دنیا کے بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔

خواجہ آصف کے مطابق خیبر پختونخوا میں امن بحال کیا جائے گا۔

ہم نے خبردار کیا تھا کہ ایسا ہوگا، محسن داوڑ

'مذاکرات کے نام پر انہیں (ٹی ٹی پی کو) جگہ دی جا رہی ہے، ان کو جان بوجھ کر آباد کیا جا رہا ہے۔'
اپ ڈیٹ 30 جنوری 2023 09:44pm
Mohsin Dawar: We warned that we would face the spillover here - Aaj News

پشاور کے علاقے ملک سعد پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 44 افراد شہید اور 150 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

اس سلسلے میں ہماری آرگیومنٹ رہی ہے کہ جس طرح سے ہم افغان طالبان، حقانی نیٹورک کوئٹہ شوریٰ کو سپورٹ کرتے آرہے تھے، وہ یہاں سے افغانستان میں اپنے حملے کرتے تھے۔ ان کی سروائیول (بقا) ہی ہماری وجہ سے تھی، ورنہ وہ بیس سال کے طویل عرصہ سروائیو نہ کرتے۔

امریکا کا ارادہ بھی ان کو مکمل طور پر ختم کرنے کا نہیں تھا اور نہ ہی اس مسئلے سے نمٹنا ان کا مقصد تھا۔ ان کے اپنے اسٹریٹجک مفادات تھے، یہ الگ بحث ہے۔

لیکن ہم نے بھی انہیں جگہ دی اور اس لیے انہوں نے جا کر ہمارے مقامی گروپوں کی حمایت کی۔ مقامی طالبان بھی ان کی حمایت کی۔ اور اس تمام سپورٹ سے افغانستان میں ایک منتخب حکومت کا خاتمہ ہوا اور طالبان نے قبضہ کر لیا۔

ہم تنبیہہ کر رہے تھے کہ یہ اسپل اوور اب یہاں (پاکستان) کی طرف ہوگا، پہلے ان کی توجہ اُسی طرف تھی، لیکن اب وہ ہماری طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔

میں نے ایک مضمون میں لکھا بھی تھا کہ افغانستان میں اسٹریٹجک گہرائی کی تلاش میں ہم نے پاکستان میں اپنی اسٹریٹجک گہرائی کھو دی ہے۔ اب یہ بائی ڈیزائن تھا یا کچھ اور، بہرحال جب ہم نے یہ سمجھ سکتے تھے تو انہیں بھی اس کی سمجھ تھی۔ لیکن ہم پھر بھی ان کا ساتھ دیتے رہے۔

پھر جب افغانستان کا یہ واقعہ ہوا اور انہوں (طالبان) نے ملک پر قبضہ کرلیا تو یہاں سے وفود اور جرگے جانے شروع ہوگئے اور انہوں نے حقانی نیٹ ورک کے ذریعے ٹی ٹی پی سے بات چیت شروع کر دی۔

ہم تک اندرونی کہانیاں پہنچتی تھیں، ان کے مطالبات بہت زیادہ تھے۔ ٹی ٹی پی ہمارے علاقوں میں مکمل اقتدار اور اختیار چاہتی تھی، اور چاہتی تھی کہ اسلحہ سمیت وہ واپس آئیں۔

یہاں پر جنرل فیض جرگے اور بیوروکریٹس وغیرہ کو بھیجتے تھے۔ وہاں جو باتیں ہوتی تھیں وہ الگ تھیَ ان کو ایک طریقے سے یقین دہانی کرادی گئی تھیکہ فاٹا اںضمام کو بھی ہم ختم کردیں گے، آپ لوگ واپس آجائیں گے۔ انہیں بتایا گیا کہ فاٹا کے انضمام سے متعلق ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں پڑی ہے۔

یہاں کا بیانیہ یہ ہوتا تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں گے اور قانون کی پاسداری کریں گے، حالانکہ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ہم اس آئین و قانون کو نہیں مانیں گے، یہ قانون اسلامی ہی نہیں ہے۔

ہم نے پھر کہا کہ ان لوگوں کو مذاکرات کے نام پر جگہ دی جا رہی ہے، ان کو جان بوجھ کر آباد کیا جا رہا ہے۔

قومی سلامتی کے تمام اجلاسوں میں ہم نے بریفنگ سنی اور ہم نے اس کا جواب دیا اور کہا کہ آپ غلطی کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چیزیں ٹھیک نہیں ہیں لیکن اگر آپ انہیں جگہ دیں گے تو حالات بدترین ہوجائیں گے۔ لیکن پھر بھی انہیں جگہ دی گئی اور جو کچھ اب ہو رہا ہے ہم نے انہیں لفظ بہ لفظ بتا دیا تھا کہ ایسا ہو گا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ کسی وجہ سے انہیں کسی نہ کسی ایجنڈے کے تحت راستہ دیا جا رہا ہے اور دوبارہ بسایا جا رہا ہے۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ لوگ نکلے ہیں اور مزاحمت کی وجہ عسکریت پسند کسی حد تک بیک فٹ پر چلے گئے ہیں۔ یہ مکمل قبضے جیسی صورتِ حال نہیں ہے۔ ورنہ یہ سوات میں آگئے تھے، باجوڑ میں حملے کر رہے تھے۔ وزیرستان، مہمند، سوات، بنوں، باجوڑ، خیبر، اور ہر جگہ عوامی بغاوتوں کی وجہ سے کچھ حکومتی کنٹرول باقی تھا۔

ورنہ ان کی موجودگی اتنی مضبوط ہے کہ پشاور میں بھی وہ ہر دوسرے دن پولیس پر حملے کر رہے ہیں۔ آج انہوں نے پولیس لائنز پشاور کی مسجد پر بھی خودکش حملہ آور کے ذریعے حملہ کیا ہے۔ چند روز قبل سربند تھانے پر حملہ کر کے ایک ڈی ایس پی اور دوسرے پولیس افسران کو شہید کر دیا اور وہ بغیر کسی روک توک کے چلے جاتے ہیں۔

اس سے پہلے بنوں سی ٹی ڈی کے ایک تھانے کو قابو کرلیا تھا، اس سے پہلے تھانہ براگی جو لکی مروت اور بنوں کے درمیان باؤنڈری پر آتا ہے، اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس سے پہلے وانا سٹی تھانے پر قبضہ کر کے وہ تمام اسلحہ اندر لے گئے تھے۔

میں اس کو افغانستان کا ایکشن ری پلے دیکھ رہا ہوں۔ افغانستان میں بھی یہی صورت حال تھی، حکومت گرنے سے پہلے افغان طالبان نے یہاں سے مختلف علاقوں کے گورنر مقرر کردئیے تھے اور اب ٹی ٹی پی نے بھی مختلف علاقوں میں گورنر اور انٹیلی جنس چیفس مقرر کردئیے ہیں۔ اور وہ جب چاہیں جس طرح چاہیں حملہ بھی کر سکتے ہیں لوگوں کو اٹھا بھی سکتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے جس طرح کے ملے جلے اشارے سیکیورٹی فورسز اور پولیس کو دئیے گئے تو وہ بھی کنفیوز ہیں اور قوم بھی کنفیوز ہے کہ کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔

ملک کی مرکزی سیاسی قیادت اب بھی پرانی ناقص افغان پالیسی پر گامزن ہے کیونکہ عسکری قیادت ایسا ہی چاہتی ہے، جو کچھ بظاہر کہا گیا ہے وہ زمین پر کیے گئے اقدامات سے مختلف ہے۔

اب اس ساری الجھن کے درمیان عام تاثر یہ ہے کہ یہ جان بوجھ کر ہو رہا ہے، ایک گریٹ گیم کا حصہ ہے اور شاید مغرب چاہتا ہو کہ کسی طرح افراتفری پیدا ہو ، عسکریت پسندی ہو تاکہ چین کی اقتصادی ترقی اور سی پیک کا راستہ روکا جائے، اور شاید اسی لیے طالبان سے مذاکرات کو جگہ ملی۔ شاید اسی وجہ سے امریکہ اچانک پیچھے ہٹ گیا اور افغانستان کو طالبان کے حوالے کر دیا۔

نتیجتاً عوام مشکلات کا شکار ہے، لوگ مر رہے ہیں۔ کوئی سرمایہ کاری کرنے نہیں آرہا، ہماری معیشت بری حالت میں ہے، امنِ عامہ کی حالت بدتر ہوگئی ہے۔

پہلے کے طالبان اور اب کے طالبان میں کافی فرق ہے۔ اب ان کی پشت پر پوری ریاست ہے اور وہ آسانی سے اسے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے وہ پیادے جنہیں افغانستان میں ریاستی ڈھانچے کا کوئی حصہ نہیں ملا وہ ہماری طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ جہاد تو ابھی بھی جاری ہے، انہیں لڑنا ہے، آگے بڑھنا ہے اور مزید فتوحات حاصل کرنی ہیں۔ ہم انہیں اپنے علاقوں میں آتے دیکھ رہے ہیں۔ جو لوگ افغانستان میں لڑے، وہ یہاں ٹی ٹی پی اور مقامی گروپوں کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔

انہوں نے اس گریٹ گیم کے اجزاء اور جزیات تیار کرلی ہیں، انہیں خام مال ملا ہوا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ شاید اب کوئی نئی بھرتیاں نہ ہوں، لیکن نئی بھرتیاں بھی جاری ہیں، یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ اور جتنا یہ خطرناک ہوتا ہے اتنی ہی اس کیلئے نہ کوئی منصوبہ بندی ہے نہ سنجیدگی سے اس سے نمٹا جارہا ہے، جو بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے کہ کیا یہ کسی وجہ سے جان بوجھ کر ہورہا ہے؟ کیا ہم پھر مہرے بن رہے ہیں؟

وجہ کچھ بھی ہو، لوگوں کی حالت خراب ہے اور دہشت گردی دن بدن بڑھ رہی ہے اور شاید اگر مہم جوئی جاری رکھی گئی تو ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

سانحہ پشاور کے بعد کراچی کی سکیورٹی ہائی الرٹ

کراچی میں رینجرز نے پیٹرولنگ اور اسنیپ چیکنگ کو مزید بڑھایا دیا
شائع 30 جنوری 2023 07:36pm
آرٹ ورک/ آج نیوز
آرٹ ورک/ آج نیوز

پشاور پولیس لائنز مسجد میں دھماکے کے بعد کراچی میں بھی سکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی۔

کراچی میں رینجرز نے پیٹرولنگ اور اسنیپ چیکنگ کو مزید بڑھایا دیا ہے، رینجرز کے جوانوں کو اہم مقامات پر تعینات اور سکیورٹی سخت کرنے کے احکامات جاری کردیئے گئے۔

رینجرز کو پولیس کے ساتھ ملکر مشتبہ علاقوں کی مشترکہ کومبنگ آپریشن کی ہدایت بھی کردی گئی ہے۔

حکام نے شہریوں ہدایت کی ہے کہ ہنگامی صورتحال میں رینجرز کی ہیلپ لائن 1101 اور رینجرز کے واٹس ایپ نمبر 03479001111 پر اطلاع دیں۔

پشاور خودکش حملہ: پیش امام، دو انسپکٹر سمیت کئی شہداء کی فہرست میں شامل

پیش امام سمیت کئی پولیس افسران شہداء میں شامل
اپ ڈیٹ 30 جنوری 2023 07:28pm
تصویر بزریعہ اے ایف پی
تصویر بزریعہ اے ایف پی

پشاور کی ملک سعد پولیس لائن کی مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے میں شہید افراد کی فہرست جاری کردی گئی ہے۔

خودکش حملے میں پیش امام صاحبزادہ نور الامین سمیت کئی پولیس اہلکار شامل ہیں۔

فہرست کے مطابق دھماکے میں انسپکٹر عرفان خان ، انسپکٹر دوران شاہ، کانسٹیبل نسیم شاہ ، ایس آئی ظاہر شاہ، ایس آئی تلاوت شاہ شہید ہوئے۔

ان کے علاوہ ذہب نواز، مقصود احمد، رفیق، لیاقت، امجد اور شہریار نامی اشخاص بھی شہید ہوئے ہیں۔

وسیم شاہ، گل شرف، لیاقت اور محمد علی کا نام بھی فہرتس میں شامل ہے۔

شہداء میں خاتون رشیدہ بی بی زوجہ پشاوری لالا، حیات اللہ خٹک، محمد زبیر، محمد عثمان، خالد جان،عبدالودود اور لیاقت اللہ بھی شامل ہیں۔

فہرست میں شہاب اللہ، عاطف مجیب اور رضوان اللہ کا نام بھی درج ہے۔

پشاور دھماکا: شہادت پانے والے پولیس افسر کے نام سے موسوم مسجد بھی شہید

شہید ملک سعد کو بھی خودکش دھماکے میں شہید کی گیا تھا۔
شائع 30 جنوری 2023 06:47pm
تصویر بزریعہ روئٹرز
تصویر بزریعہ روئٹرز

پشاور کی پولیس لائن میں ہونے والے خودکش حملے میں شہید ہونے والی مسجد سابق پولیس چیف ملک محمد سعد خان کے نام سے موسوم تھی۔

پشاور کے سابق پولیس چیف (سی سی پی او) ملک سعد کو 27 جنوری 2007 کو ڈھکی نعلبندی میں ہونے والے خودکش دھماکے میں شہید کی گیا۔

ان کے ساتھ جام شہادت نوش کرنے والوں میں ڈی ایس پی خان رازق، ناظمین محمد علی صافی، میاں افتخار حسین، آصف باغی اور دیگر شامل تھے۔

ملک سعد ایک دلیر، ملنسار، بے تکلف، نہایت قابل،ایمانداراورفرض شناس پولیس آفیسرتھے ان کی انہی خوبیوں اور اچھائیوں کی وجہ سے ہر کوئی ان کا شیدائی تھا۔

سابق پولیس چیف پشاور ملک سعد خان شہید
سابق پولیس چیف پشاور ملک سعد خان شہید

یہی وجہ ہے کہ پشاور کی پولیس لائن ملک سعد پولیس لائن کے نام سے جانی جاتی ہے۔

ملک سعد مرحوم کے بڑے بھائی ملک محمد سلیم شہید 1991 ء میں کراچی میں بطورڈائریکٹر کسٹم انٹیلی جنس تعینات تھے اور ڈیوٹی کے دوران48 سال کی عمر میں دہشت گردوں کی وحشیانہ گولیوں کا نشانہ بنے۔

پشاور پولیس لائن کا علاقہ کتنا حساس ہے؟

کچھ آگے جائیں توجوڈیشل کمپلیکس، پشاور ہائی کورٹ، کور کمانڈر ہاؤس کی عمارت موجود ہے۔
شائع 30 جنوری 2023 06:23pm
تصویر بزریعہ روئٹرز
تصویر بزریعہ روئٹرز

پشاور کے انتہائی حساس علاقے پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکے سے جہاں مسجد کی عمارت کا کچھ حصہ منہدم ہوا وہیں قریب موجود کینٹین کی عمارت بھی گر گئی۔

پولیس لائن کا علاقہ پشاور میں انتہائی حساس ہے اور یہاں پولیس افسران و انتظامیہ کے دفاتر اور پولیس اہلکاروں کی رہائش گاہیں موجود ہیں۔

پولیس لائن کا علاقہ پشاور شہر کے اہم اور حساس علاقوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

پولیس لائن شہر کی اہم شاہراہ خیبر روڈ پر واقع ہے۔

پولیس لائن سے ملحقہ شاہراہ سے ایک راستہ وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کی جانب جاتا ہے، جبکہ اس کے دائیں جانب سول سیکریٹریٹ کی عمارت موجود ہے۔

پولیس لائن کے عقب میں پشاور کی سینٹرل جیل بھی واقع ہے۔

یہ علاقہ ایک ہائی سیکورٹی زون قرار دیا جاتا ہے اور یہاں ہر آنے اور جانے والی کی تلاشی لی جاتی ہے۔ پولیس نے مختلف جگہوں پر ناکہ بندی کر رکھی ہے۔

خیبر روڈ پر کچھ آگے جائیں تو وہاں جوڈیشل کمپلیکس اور اس کے ساتھ پشاور ہائی کورٹ کی عمارت بھی موجود ہے، جبکہ اس کے سامنے کور کمانڈر ہاؤس اور (سابقہ پرل کانٹینینٹل) سرینا ہوٹل کی عمارت موجود ہے۔