رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو نکالنے کی قطعی طورپر کوئی بات نہیں کی گئی، نگراں وزیراعظم
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ معیشت کو درپیش دیرینہ چیلنجز کے حل کیلئے میثاق معیشت اور جمہوری تسلسل ضروری ہے، معاشی استحکام کیلئے برآمدات میں اضافہ اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی ضرورت ہے، ایم ڈی آئی ایم ایف سے ملاقات حوصلہ افزاء رہی ہے، رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو بے دخل نہیں کیا جا رہا ہے، سول اداروں کی استعداد کار میں اضافہ کرکے بہتر اسلوب حکمرانی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
پیر کو پی ٹی وی کے اینکرز اور وی لاگرز کو پینل انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ نیویارک سے واپسی پر جہاز کی ری فیولنگ کیلئے فرانس میں رکنا پڑا، سوشل میڈیا پر بے بنیاد خبریں پھیلائی جاتی ہیں، تعمیری تنقید کا خیرمقدم کرتے ہیں، ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں تہمت کا عنصر نمایاں ہو رہا ہے جس سے ہمارے مذہب نے صدیوں پہلے روکا تھا اس کا اب ہم شکار ہو رہے ہیں، یہ بڑی بیماری ہے جہاں پر متاثرہ شخص کو وضاحت کا موقع بھی نہیں ملتا، آزادی اظہار رائے کے نام پر غلط خبریں پھیلانا افسوسناک ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف واضح ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ہم اسرائیل کو غاصب ریاست اور فلسطین کو مظلوم سمجھتے ہیں، یہ ظالم اور مظلوم کی جنگ ہے، گذشتہ کچھ دہائیوں سے عالمی سطح پر دو ریاستوں کے تصور کا حل تجویز کیا گیا ہے تاہم بدقسمتی سے اسرائیل مذکورہ حل سے انکاری ہے جس کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں پیچیدگیاں بڑھ رہی ہیں اور اسلامی دنیا میں فلسطین اور کشمیر کی وجہ سے بنیاد پرستی کا عنصر نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نگراں وزیراعظم کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد وہ اپنا سیاسی کردار ادا کرتے رہیں گے، اس کیلئے ضروری نہیں کہ میں کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار یا کسی پارلیمان کا رکن ہوں۔
انہوں نے کہا کہ بطور نگراں وزیراعظم ان کا پہلا اجلاس توانائی کے حوالے سے ہوا، اس وقت جون اور جولائی کے 14 روپے فی یونٹ اضافی ڈالنے پڑے، اس پر ہمارے اوپر تنقید بھی ہوئی لیکن یہ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدے کا حصہ تھا، ہم نے ان سے بات بھی کی، مجھ سے منسوب ایسی باتیں بھی کی گئیں جو میں نے نہیں کیں، اس حوالے سے میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے، جب انرجی کے شعبہ کو باریک بینی سے دیکھا تو اس کے مسائل سے آگاہی ہوئی، بہت مہنگی بجلی پیدا کی جا رہی ہے، بجلی چوری کا سامنا ہے، لائن لاسز سمیت دیگر مسائل سے آگاہی ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے مختصر دور میں چاہتے ہیں ہم ایک ایسا ماڈل دے کر جائیں کہ آنے والی حکومتیں اس کو لے کر آگے بڑھیں، ہم نے 18 ارب روپے کی بجلی کی وصولیاں کیں، مہنگائی کی بنیادی وجہ بری اور کمزور حکمرانی ہوتی ہے جس کا اثر کمزور اور پسے ہوئے طبقہ پر پڑتا ہے جبکہ اشرافیہ کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ اگر بجلی کی قیمت دگنی بھی کر دیں تو ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا، صوبوں کے ذمہ واجبات اور سرکاری اداروں کے ذمہ بقایا جات کی وصولی ہونی چاہئے، ماضی میں انتظامی امور پر توجہ نہ دینے سے مہنگائی، گردشی قرضے اور سمگلنگ جیسے مسائل پیدا ہوئے۔
انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ہو گا، ان کے لوازمات اور ضروریات پوری کریں گے، الیکشن کمیشن اپنا آئینی کام بھرپور انداز میں کر رہا ہے، انتخابات کی تاریخ کا مینڈیٹ الیکشن کمیشن کے پاس ہے، ہم آئینی طور پر ان کی معاونت کے پابند ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کو درپیش چیلنجز دیرینہ ہیں، ہم ان کے حل کیلئے کوشاں ہیں، میں اپنا ووٹ اس جماعت کو دوں گا جس کے پاس معاشی بحالی کا منصوبہ ہو گا، پاکستان کا بنیادی چیلنج معیشت کا ہے اس کیلئے میثاق معیشت اور جمہوری تسلسل چاہئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے دو صوبے دہشت گردی کا بہت زیادہ شکار ہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا قلع قمع کرے، انسداد دہشت گردی میں پاکستان نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس نے اس کی بڑی قیمت بھی ادا کی، نان سٹیٹ ایکٹرز کے کنٹرول میں ملک کا کوئی علاقہ نہیں ہے، اس حوالے سے ان کی منصوبہ بندی ناکام بنائی گئی، افغانستان میں نیٹو اور اتحادی افواج کی موجودگی کے باوجود بہت سے علاقے مسلح جتھوں کے کنٹرول میں تھے، ہم پرعزم ہیں کہ ہماری فورسز اپنے عزم سے دہشت گردی کا قلع قمع کریں گی، آخری دہشت گرد کے خاتمہ تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اداروں کو فتح کرنے کی جب بھی کوشش کی گئی تو اس میں کامیابی نہیں ہوئی کیونکہ وژن اور سالمیت کا فقدان ہے، ہمیں سول اداروں کو مضبوط بنانا ہو گا، ہمسایہ ممالک کے مقابلہ میں ہمارے دفاعی اخراجات پورے خطے میں کم ہیں، افغان نیشنل آرمی کیلئے امریکہ نے 100 ارب ڈالر خرچ کئے۔
انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت آئی پی پیز کو درآمدی کوئلہ کی بجائے مقامی کوئلہ پر منتقل کرنے کیلئے تجاویز مرتب کر رہی ہے، منتخب حکومتوں کو یہ کام کرنا چاہئے تھا، ہم نے اپنی ترجیحات بنائی ہیں، طویل المدتی تجاویز بھی دے رہے ہیں، قانونی مسودے بھی بنا کر جائیں گے، بیرونی قرضے پروڈکٹیو سمت میں لگانے چاہئیں، امریکہ ہم سے زیادہ قرضے لیتا ہے لیکن وہ اسے پیداواری سمت میں لگاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہا کہ ہم اپنے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھانے کی طرف جا رہے ہیں، زراعت، وکلا، ڈاکٹر، نجی ہسپتال اور ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہتے ہیں، اس سے ہماری معاشی صورتحال خود بخود بہتر ہونا شروع ہو جائے گا، آبادی کا صرف 10 فیصد ٹیکس دے رہا ہے۔
افغان مہاجرین کی ان کی وطن واپسی کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم رجسٹرڈ پناہ گزینوں کو بے دخل نہیں کر رہے بلکہ ایسے لوگوں کو نکال رہے ہیں جن کے پاس پاکستان میں رہنے کی کوئی قانونی دستاویز نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے حوالے سے قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مینوفیکچرنگ اور گھریلو مصرف کی اشیاء کی ایل سیز پر کوئی پابندی نہیں۔
’رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو نکالنے کی قطعی طورپر کوئی بات نہیں کی گئی‘
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے گورننس کے ڈھانچے، سیاست اور معیشت سمیت اہم قومی معاملات پر دیانتدارانہ قومی ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ صحت مند اور خوشحال معاشرے کی تشکیل کے لئے قومی ڈائیلاگ کے حوالے سے پارلیمان قائدانہ کردار ادا کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے وفاق صوبوں کے ساتھ مل کر اقدامات اٹھا رہا ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں، پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بہت پرامید ہوں۔
انہوں نے یہ بات گزشتہ شب ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم ”ٹاک شاک“ کو دیئے گئے انٹرویو میں کہی۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے داخلہ و خارجہ امور ، تنازعہ فلسطین ، مسئلہ کشمیر سمیت اہم امور پر روشنی ڈالی۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت معاشی، سیاسی اور دیگر چیلنجز درپیش ہیں لہٰذا اس حوالے سے بحیثیت قوم ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
انہوں نے اس امرپر زور دیا کہ گورننس کے سٹرکچر ، سیاسی رویہ ، مذہب اور سیاست ، معیشت ، سیاست اور عدلیہ کے نظام سمیت دیگر امور پر دیانتدارانہ اور کھلے قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں پارلیمان قائدانہ کردار ادا کرسکتی ہے، توقع ہے کہ آنے والی پارلیمان اس پر کام کرے گی تاکہ ایک صحت مند اور خوشحال معاشرے کی طرف پیش قدمی کی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں کسی قسم کی بنیاد پرستی یا انتہا پسندانہ رویے کی کوئی گنجائش نہیں، جو بھی ایسا کرے گا ریاست اس کے خلاف کارروائی کرے گی۔
مہنگائی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دیکھنا ہوگا اس کے اسباب کیا ہیں۔ یہاں گندم سمیت اجناس وافر مقدار میں دستیاب ہیں تاہم ذخیرہ اندوزی کا مسئلہ سامنے آرہا ہے، اس کے خلاف کارروائی شروع کی تو چینی کی قیمتیں کم ہوئیں، یہ کام ضلعی حکومتوں کا ہے تاہم وفاق صوبوں کے ساتھ مل کر اقدامات اٹھا رہا ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے پلیٹ فارم سے سعودی عرب ، متحدہ امارات سمیت دنیا بھر سے معدنیات، آئی ٹی سمیت دیگر شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے، اس حوالے سے دسمبرمیں اہم خبریں آسکتی ہیں۔
غیرقانونی تارکین وطن کے انخلاء کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو نکالنے کی قطعی طورپر کوئی بات نہیں کی گئی، اس بارے میں تاثر بالکل غلط ہے۔ دوسری کیٹیگری وہ غیرقانونی غیر ملکی ہیں جن کے پاس پاسپورٹ اور ویزے سمیت کوئی قانونی دستاویز نہیں ہے اور معاشرے میں ان کا کردار مبہم ہے اور وہ ہمارے نظام میں نہیں ہیں، بحیثیت ریاست ہم چاہتے ہیں کہ انہیں واپس جانا چاہیے۔ ان کا یہاں رہنے کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی کوئی ریاست ان کو نکالنے کو غیر قانونی یا غیر اخلاقی نہیں سمجھتی تاہم ہم چاہتے ہیں کہ ایسے غیر قانونی غیر ملکیوں کی واپسی کے عمل میں ان کی عزت نفس مجروح نہیں ہونی چاہیے۔ تیسری کیٹیگری ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے ہمارے معاشرے کے خاندانوں میں شامل ہو کر جعلی دستاویزات بنوا لیں، اس میں بھی نظام کا غلط استعمال ہوا ہے اور اس کو بھی ختم کرنا ہے اور ایسے لوگوں کی جانچ پڑتال کرنی ہے۔ اس میں کسی بھی مخصوص آبادی کو ہدف نہیں بنایا جائے گا۔
انہوں نے یقین دلایا کہ پاکستانی نژاد پشتونوں کے بنیادی شہری حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، ڈی این اے ٹیسٹ سے کسی بھی خاندان کی فیملی ٹری میں کسی دوسرے فرد کی شناخت ہو سکے گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے مستقبل سے مایوس نہیں ہیں بلکہ بہت پرامید ہیں، سعودی عرب میں 15 سے 20 لاکھ ہنر مند پاکستانیوں کی کھپت کے مواقع موجود ہیں، جبکہ پاکستان سے افرادی قوت ان کی ترجیح ہے اس کے لئے ہنر مند افرادی قوت کی تیاری پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں، ملک بھر میں قائم ووکیشنل ٹریننگ اداروں کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں ، اس بارے میں اس ہفتے اہم اجلاس ہو گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ عمران خان کی رہائی کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے اگر عدالت انہیں آزاد کرتی ہے تو وہ سیاسی عمل کا حصہ ہوں گے ۔ عدالتیں جو بھی فیصلہ کریں گی نگران حکومت اس پر عملدرآمد کی پابند ہوگی۔
نگران وزیراعظم نے لاپتہ افراد کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے پاکستان میں کمیشن کی تشکیل اہم اقدام ہے، کسی فرد کو زیر حراست رکھے جانے کے حوالے سے مدت کے تعین سمیت دیگر ایسے امور پر بدقسمتی سے سنجیدہ قانون سازی نہیں ہوئی، یہ کام پارلیمان نے کرنا تھا، پاکستان ایک عرصہ سے دہشتگردی کا شکار ہے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 90 ہزار پاکستانی شہید ہوئے، ہمیں مختلف پرتشدد چیلنجز کا سامنا ہے تاہم اس حوالے سے لیگل فریم ورک نہیں لایا جا سکا۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ پروپیگنڈا کی صورت میں ریاست کی بدنامی کا سبب بننا اچھا عمل نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سویلین بالادستی کے نعرے بلند کرنے والوں کو اس حوالے سے قانون سازی بھی کرنی چاہئے، قومی دھارے کی کسی جماعت نے اس کو اپنے منشور کا حصہ نہیں بنایا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان میں قانون سازی کا معیار نسبتاً کمزور ہے۔ قانون سازی پرمفصل گفت و شنید ہونی چاہئے اور انہیں کمیٹیوں میں لے جانا چاہئے تاکہ بہتر نتائج حاصل ہو سکیں۔
انہوں نے کہاکہ بطور نگران وزیراعظم انہیں ہر جگہ فیصلہ سازی کی آزادی ہے اور وہ فیصلے لے رہے ہیں ، آرمی چیف سویلین بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر ہم سویلین بالادستی کی بات کرتے ہیں تو ہماری کارکردگی ، وقار اور وژن اس کا فیصلہ کرے گا ۔ ان عوامل کے بغیر بالادستی کا دعویٰ مشکل ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن جب انتخابات کرائے گا ہم اس کی معاونت کریں گے ۔ ہم سکیورٹی اور فنڈ زسمیت تمام ممکنہ وسائل فراہم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ نادرا کے چیئرمین کی خدمات ہم نے فوج سے حاصل کی ہیں۔ نادرا کا ادارہ بھی ایک فوجی حکمران کے دور میں بنا، حاضر سروس فوجی آفیسر قابل ترین افراد میں سے ہیں۔ ان کے تقرر کا انتخابات پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردوں کا ہدف انارکی پھیلانا ہوتا ہے، تمام سیاسی قیادت کے لئے سکیورٹی کے سنجیدہ چیلنجز ہیں ہم ان کی سلامتی یقینی بنائیں گے۔
فلسطین کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں اور فلسطینیوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کی ہے ، پاکستان تمام عالمی پلیٹ فارمز پر فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے گا ۔ دنیا کو ادراک ہے کہ مشرق وسطیٰ کے مسائل کا حل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں ہے ، اس مسئلہ پر تمام مسلمان ممالک کو مل کر یکساں موقف اپنانا ہوگا، کشمیر اور فلسطین کے مسائل حل نہ کئے گئے تو انتہا پسندی آنے والی صدیوں میں بھی ختم نہیں ہو گی۔
نگران وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان ہمیشہ فلسطینیوں کے موقف کی حمایت کرتارہا ہے۔ 1974 میں لاہور میں ہونے والی پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس میں کشمیر کے ساتھ فلسطین بھی ایک اہم معاملہ تھا۔ پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام کا دوست رہا ہے۔ پاکستان نے فلسطینیوں کے لئے اپنی حمایت کا مختلف سفارتی، سیاسی و سماجی پلیٹ فارمز پر ہمیشہ سےاعادہ کیا ہے اور کرتا رہے گا۔ او آئی سی اور اقوا م متحدہ کے پلیٹ فارمز سمیت بین الاقوامی فورمز پر پاکستان فلسطینیوں کی بھرپور مدد اور حمایت جاری رکھے گا۔
وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دو ریاستی فارمولا فلسطین کے مسئلے کا موزوں حل ہے اور خود فلسطینی بھی اسی حل کے قائل ہیں اور اسی سے مشرق وسطیٰ میں استحکام آئے گا۔
انہوں نے اس امر کااعادہ کیا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا۔
وزیراعظم نے کہا کہ فلسطینیوں نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے اتفاق کیا تھا لیکن اسرائیل اور فلسطین کے مابین جو معاہدہ ہوا تھا اس پر اسرائیل کی طرف سے عمل نہیں کیا جارہا۔ فلسطینیوں کو معاہدے کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست نہیں دی جارہی۔
ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہم ہندوستان سمیت تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں ، بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے پاکستان کے ساتھ کشمیری بھی بنیادی فریق ہیں جو 70سال سے بھارتی جبرو استبداد برداشت کر رہے ہیں ، بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کے عمل کا اگر کشمیری حصہ نہیں ہوں گے تو کوئی بات چیت دیرپا نہیں ہوسکتی ۔
انہوں نے کہا کہ وہ بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح کرکٹ کے شوقین ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ جیت کر آئے ، تاہم ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں کہ وہ میچ دیکھنے بھارت جائیں ، کھیل کو کھیل کے طور پر دیکھنا چاہئے ، بھارت پاکستانی تماشائیوں کو ویزے دے اگر یہی ایونٹ پاکستان میں ہوتا توہم انہیں ویزے جاری کرتے ، بدقسمتی سے بھارت کھیل کے تعلقات معمول پر نہیں لاسکتا تو تجارتی تعلقات کیسے ممکن ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورے کے حوالے سےسفارتی ذرائع سے دوطرفہ بات چیت ہو رہی ہے چند منصوبوں پر بات چیت جاری ہے ، معاہدے کے قریب ہیں۔
’حجاج کیلئے کم خرچ میں بہترین سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے‘
نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ حج پالیسی جلد سے جلد وفاقی کابینہ کو منظوری کے لیے پیش کی جائے، حج جیسے اہم مذہبی فریضے کی انجام دہی کو حجاج کے لیے آسان اور سستا بنانے کے لیے بھرپور اقدامات اٹھائے جائیں، حجاج کے لیے کم خرچ میں بہترین سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی زیر صدارت وزارت مذہبی امور کا اجلاس منعقد ہوا۔
اجلاس میں نگراں وزیراعظم کو وزارت کی کارکردگی کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
انوار الحق کاکڑ کو حج کے حوالے سے اقدامات اور حج پالیسی 2024 کی تیاری کی پیشرفت سے بھی آگاہ کیا گیا۔
اجلاس کے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ حج جیسے اہم مذہبی فریضے کی انجام دہی کو حجاج کے لیے آسان اور سستا بنانے کے لیے بھرپور اقدامات اٹھائے جائیں۔
انہوں نے ہدایت دی کہ حجاج کے لیے کیے جانے والے انتظامات پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا جائے اور کم خرچے میں بہترین سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
انوار الحق کاکڑ نے مزید ہدایت دی کہ نجی کمپنیوں کی کڑی نگرانی کرکے یہ یقینی بنایا جائے کہ ان کے توسط سے پرائیویٹ سکیم کے تحت جانے والے عازمین حج کو بھی کسی قسم کی مشکلات نہ پیش آئیں۔
وزیراعظم نے ہدایت دی کہ حج پالیسی جلد وفاقی کابینہ کو منظوری کے لیے پیش کی جائے۔
اجلاس میں نگراں وزیرِ مذہبی امور انیق احمد، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت مذہبی امور اور متعلقہ حکام نے شرکت کی۔
فلسطین کے حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی پہلے دن سے واضح ہے، کاکڑ
دوسری جانب نگراں وزیراعظم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ سوشل میڈیا پر بے سروپا خبریں پھیلائی جاتی ہیں، تعمیری تنقید کا خیرمقدم کرتے ہیں، آزادی اظہار رائے کے نام پر غلط خبریں پھیلانا افسو سناک ہے۔
مزید پڑھیں
نگراں وزیراعظم اور چینی صدر کے درمیان ملاقات طے
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ فلسطین کے حوالے سے ہماری خارجہ پالیسی پہلے دن سے واضح ہے، مشرق وسطیٰ میں امن کا قیام 2 ریاستوں کے قیام میں مضمر ہے، انتہا پسندی کا قلع قمع کیا جائے گا، نگراں وزیراعظم کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد سیاسی کردار ادا کرتا رہوں گا۔
Comments are closed on this story.