Aaj News

اتوار, اپريل 28, 2024  
19 Shawwal 1445  

عمان کا قدیم قصبہ، جہاں جنات چلتے پھرتے لوگوں سے بات کرتے ہیں

قصبہ عمان کے دارلحکومت مسقط سے تقریباً 200 کلومیٹر پر جنوب مغرب میں واقع ہے
اپ ڈیٹ 24 نومبر 2023 05:37pm
تصویر— اے ایف پی
تصویر— اے ایف پی

بُھوت پریت کے قصے سُن کر تو ویسے ہی راتوں کی نیند اُڑ جاتی ہے لیکن ایک ایسا بھی ملک ہے جہاں کے لوگ یہ کہتے ہیں اِنہیں جِن نظر آتے ہیں، وہ ان سے باتیں کرتے ہیں۔

ہم آپ کو ایک ایسی جگہ لیکر چلتے ہیں، وہاں لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ جن کے ساتھ رہتے ہیں انہیں دیکھتے ہیں بلکہ جن ان کے لیے کام بھی کرتے ہیں، جہاں جن پائے جاتے ہیں اس قصبے کا نام ”بہلا“ ہے، جو عمان کی ایک قدیم آبادی ہے۔

یہ قصبہ عمان کے دارلحکومت مسقط سے تقریباً 200 کلومیٹر پر جنوب مغرب میں واقع ہے، یہ علاقہ الداخلیہ صوبے میں شامل ہے، یہاں زیادہ تر مکانات کچی اینٹوں کے ہیں اور کجھور کے درخت اور جھنڈ ہیں۔ یہ ایک صحرائی علاقہ ہے اور خطہ عرب کا سب سے اونچا پہلاڑی سلسلہ کوہ حجر بھی پاس سے گزرتا ہے۔

جب آپ بہلا میں داخل ہوتے ہیں توعمارتوں کی قدامت، ماحول پر چھائی ہوئی خاموشی سے خوف آنے لگتا ہے، اس علاقے کا شمار اومان کی قدیم ترین انسانی آبادیوں میں ہوتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ علاقہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل ہے، یہاں موجود قلعہ قرون وسطیٰ میں تعمیر ہوا تھا۔

حماد الربانی ایک ٹور گائیڈ ہیں جو سیاحوں کو قرون وسطی کے قلعے اور اس علاقے کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنات کا یہاں ہونا کوئی ان ہونی بات نہیں ہے، وہ بھی خدا کی پیدا کردہ مخلوق ہے۔

 تصویر— اے ایف پی
تصویر— اے ایف پی

حماد الربانی کو جنات سے متعلق کئی کہانیاں اور قصبے یاد ہیں، بتایا کہ جنات نے اس قصبے کو حملہ آوروں سے بچانے کے لیے ایک ہی رات میں 13 کلومیٹر لمبی دیوار بنا ڈالی تھی۔

55 سالہ ربانی کا کہنا ہے کہ جنات کے بارے میں قصبے میں ایک اور مشہور قصہ یہ ہے کہ یہاں آب پاشی کا قدیم ترین نظام بھی جنوں نے ہی بنایا تھا جس سے یہاں کاشت کاری ہوتی تھی۔ بہلا کے لوگوں کا جنات اور ان سے منسوب کہانیوں سے جتنا مضبوط اور گہرا تعلق ہے، وہ شاید ہی کسی اور جگہ ہو گا۔

ربانی نے بتایا کہ یہاں کے لوگوں کو یقین ہے کہ جنات جو چاہیں جب چاہیں کوئی بھی شکل اختیار کر سکتے ہیں، وہ چاہے تو گھوڑا بن جائیں یا کوئی اور جانور یا نظروں سے غائب ہو جائیں۔

انہوں نے بتایا کہ قصبے کی ایک عورت آدھی رات کو اپنی گائے کا دودھ دہونے اور پینے کی آوازیں سنا کرتی تھی، وہ کئی بار اٹھ اٹھ کر دیکھنے جاتی تھی لیکن کبھی کوئی نظر نہیں آتا تھا۔

محمد الہاشمی جن کی عمر 70 سال ہے، ان کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی جنوں اور بھوتوں کی کہانیاں سنتے ہوئے، سناتے ہوئے گذر گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں اپنے بچپن میں یہ سنا کرتا تھا کہ رات کے وقت جنات لگڑبھگڑ کے روپ میں اونٹوں کا پیچھا کرتے ہیں اور ان کے منہ سے آگ کے شعلے نکلتے ہیں۔ بزرگ انہیں نصیحت کرتے تھے کہ وہ سورج غروب ہونے کے بعد گھر سے باہر نہ نکلا کریں کیونکہ کوئی آسیب یا جادو گھیر لے گا۔

جنات سے متعلق کہانیوں پر نئی نسل کا اعتبار کم ہے، 24 سالہ میزان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے دادا دادی کی کہانیاں ہیں، مجھے نہیں معلوم ان میں کیا صحیح اور کیا غلط ہے۔

لاس اینجلس کی لایولا میری ماؤنٹ یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ کے پروفیسر علی اولومی نے کہا کہ عرب کے علاقے کی داستانوں اور قدیم تحریروں میں جنات سے متعلق واقعات ملتے ہیں۔

پروفیسر علی اولومی نے کہا کہ بہلا سے منسوب کہانیاں شاید اس لیے بھی زیادہ ہیں کیونکہ یہ علاقہ صحرا میں گھرا ہوا ہے، جہاں کوہ حجر کا سلسلہ ماحول کو مزید پر اسرار بنا دیتا ہے۔

مشرق وسطیٰ

Oman

Muscat

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div