Aaj News

جمعرات, مئ 23, 2024  
14 Dhul-Qadah 1445  

غیرمعمولی ترقی کے باوجود بھارت میں بے روزگاری اور غربت بے قابو

بڑھتی ہوئی افرادی قوت کیلئے معقول معاشی مواقع کا حصول آسان نہیں، 50 کروڑ افراد انتہائی افلاس سے دوچار ہیں
شائع 11 مئ 2024 12:06pm

بھارت 2024 میں جرمنی اور 2026 میں جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی تیسری سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ کا درجہ حاصل کرلے گا۔ یہ بات یو بی ایس نے اکنامک پراسپیکٹس رپورٹ بتائی ہے۔ اس کے باوجود ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والی آبادی ہی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بھی بن رہی ہے۔

ایشین نیوز انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کی غیر معمولی ترقی میں اُس کی آبادی اور تیزی سے پنپتی ہوئی مڈل کلاس نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دنیا بھر کے بڑے کاروباری ادارے بھارت میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی بڑی آبادی کی بدولت بہت بڑی منڈی ہے تاہم آبادی کا فیکٹر کہیں کہیں بھارت کے لیے مسائل بھی پیدا کر رہا ہے۔

اس وقت بھارت میں کم و بیش 20 کروڑ نوجوان معقول ملازمت کی تلاش میں ہیں۔ 10 کروڑ سے زائد نوجوان ایسے ہیں جو کسی نہ کسی طور کچھ کماکر اپنا اور اہلِ خانہ کا پیٹ بھر پارہے ہیں تاہم اُن کی خواہش ہے کہ ذوق و شوق اور لیاقت کی بنیاد پر اچھی ملازمت ملے۔

بھارتی حکومت کے لیے اپنی بڑھتی ہوئی افرادی قوت کے لیے روزگار کے معقول ذرائع پیدا کرنا ممکن نہیں ہو پارہا۔ سرکاری شعبے میں زیادہ نوجوانوں کو کھپانے کی گنجائش نہیں۔ رواں سال سرکاری شعبے میں ملازمت کے 70 لاکھ مواقع پیدا ہوں گے تاہم یہ ضرورت سے کہیں کم ہیں۔

کاروباری امور کے سرکردہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت چند ایک شعبوں میں غیر معمولی رفتار سے ترقی کر رہا ہے یعنی قومی خزانہ بھرتا جارہا ہے تاہم عام آدمی کے لیے زیادہ ریلیف کا اہتمام نہیں ہو پارہا۔ انتہائی افلاس کی چکی میں پسنے والوں کی تعداد آج بھی 50 کروڑ سے زیادہ ہے۔ چند بڑے شہروں کے سوا باقی ملک میں عام آدمی کی حالت قابلِ رحم ہے۔

دنیا بھر کے کاروباری ادارے سرمایہ کاری تو کر رہے ہیں تاہم معاملات تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ بھارتی معاشرے کی معاشی اور معاشرتی ناہمواریاں اُنہیں کُھل کر کام کرنے سے روکتی ہیں۔ مڈل کلاس پنپ تو رہی ہے اہم پنپنے کی رفتار تسلی بخش نہیں۔ دوسری طرف حالات کے جبر کا شکار ہونے والوں کی تعداد زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں سماجی بے چینی کا گراف بھی بلند ہو رہا ہے۔

بھارت میں شمال اور جنوب کی تقسیم بھی بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل کر رہی ہے۔ چند ماہ کے دوران، انتخابی مہم کے نتیجے میں، شمال اور جنوب کا فرق زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آیا ہے۔ بھارت کے ایوان ہائے اقتدار پر شمالی بھارت کے لوگ متصرف رہے ہیں۔ جنوبی بھارت کی مجموعی آبادی، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، کم و بیش 25 کروڑ 30 لاکھ ہے۔ جنوبی ریاستوں کے لوگوں کا شِکوہ یہ ہے کہ اُنہیں اقتدار میں معقول حصہ نہیں مل رہا۔ اب اُن میں شمال سے بیزاری بڑھ رہی ہے۔

INDIAN ECONOMY

HUGE UNEMPLOYMENT

GROWING MIDDLE CLASS

NORTH SOUTH DIVIDE