Aaj News

جمعہ, دسمبر 06, 2024  
03 Jumada Al-Akhirah 1446  

جسٹس بابر ستار کا ایک بار پھر لمبی چھٹی پر جانے کا ارادہ

30 اکتوبر کو چند دن کیلئے عدالت لوٹیں گے
شائع 25 اکتوبر 2024 08:43am

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار ایک بار پھر لمبی چھٹی پر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق آئندہ ہفتے کے لیے جاری ہونے والے آئی ایچ سی کے ڈیوٹی روسٹر کے مطابق جسٹس ستار دستیاب ججوں میں شامل ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس بابر ستار 30 اکتوبر کو دوبارہ عدالت کا آغاز کریں گے اور یکم نومبر تک کام کریں گ جس کے بعد جسٹس بابر ستار ممکنہ طور پر 4 نومبر سے پندرہ دن کے لیے رخصت حاصل کریں گے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ جسٹس ستار عدلیہ سے متعلق آئین میں بعض ترامیم سے خوش نہیں ہیں۔

جسٹس بابر ستار ان چھ ججوں میں شامل تھے جنہوں نے اس سال کے اوائل میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط بھیجا تھا جس میں انٹیلی جنس اہلکاروں کی جانب سے مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کی تفصیلات درج تھیں۔

ایجنسیوں کا شہریوں کو اغوا کرنے کا تاثر قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہے، جسٹس بابر ستار

جسٹس ستار آڈیو لیک کیس کی بھی سماعت کر رہے ہیں جس میں ریاستی اداروں پر غیر قانونی طریقے سے شہریوں کی جاسوسی کرنے کا الزام ہے۔

اس کیس کی سماعت کے دوران شہریوں پر نظر رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر نگرانی کے نظام ’قانونی مداخلت کے انتظامی نظام‘ کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔

اسی معاملے میں جج نے آئی ایچ سی کے چیف جسٹس کے پاس شکایت درج کرائی اور نشاندہی کی کہ آڈیو لیکس کیس میں ان کے موقف کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

سینئر ججز سے جسٹس منیب کا رویہ انتہائی سخت تھا، چیف جسٹس فائز عیسییٰ کا جسٹس منصور کے خط کا جواب

جسٹس ستار نے لاہورہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق سے درخواست کی تھی کہ ان کی اور ان کے خاندان کی ذاتی تفصیلات بشمول ان کے امریکی رہائشی اجازت نامے آن لائن پوسٹ کیے جانے کے بعد توہین عدالت کی کارروائی شروع کریں۔

جج نے نشاندہی کی کہ ان کے خاندان کے افراد کی رازداری کی خلاف ورزی کی گئی تھی، اور ان کے شناختی کارڈ اور مستقل رہائشی کارڈ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیے گئے تھے۔

اس کے بعد لاہور ہائیکورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کو ہدایت کی کہ وہ ان افراد کے خلاف کارروائی کرے جن کی شناخت جسٹس ستار کا ذاتی ڈیٹا سوشل میڈیا پر پھیلانے کے لیے کی گئی ہے۔

پاکستان

26th Constitutional Amendment