پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کا زوال
تحریکیں ہمیشہ ان لوگوں کے خون پسینے سے پروان چڑھتی ہیں جو اپنے نظریے کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں۔ مگر تحریکِ انصاف میں وفاداری کو بے وفائی کی سزا دی گئی۔ جن لوگوں نے دن رات اس جماعت کا بیانیہ عوام تک پہنچایا، وہ آج یا تو نظر انداز کر دیے گئے ہیں یا سائیڈ لائن کر دیے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق حالیہ ملک میں جاری سیاسی منظر نامے میں شیر افضل مروت، جو ایک نظریاتی کارکن کے طور پر جانے جاتے تھے، جنہوں نے پی ٹی آئی کے لیے قربانیاں دیں، حتیٰ کہ عوام کے سامنے اپنے منہ پر سینیٹر افنان اللہ سے پنچ بھی برداشت کیا، ہمیشہ کہتے تھے کہ عمران خان کا کیس لڑنے کی فیس نہیں لوںگا کیونکہ انکا دیدار ہی میری فیس ہے۔ انہیں بھی کنارے لگا دیا گیا ہے۔
یہی سلوک عمران خان کی بہن علیمہ خاتون کے ساتھ بھی روا رکھا گیا، کیونکہ ان کی موجودگی بشریٰ بی بی کے ایجنڈے کے خلاف تھی۔
ذرائع کے مطابق ایسے ہی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈا پور کی جگہ جنید اکبر کو خیبرپختونخوا میں پارٹی صدر مقرر کر دیا جس نے عمران کی محبّت میں جیل کاٹی.
سب کا یہی خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی اب بات کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ قابل بھروسہ شخص نہیں ہیں، کیونکہ انکی طرف سے بہت سے وعدے کیے گئے لیکن زیادہ تر پورے نہیں ہوئے۔
عمران خان نے کہا قرض لینے سے پہلے میں خودکشی کر لوں گا اور ان کی حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ قرضے لیے۔
عمران خان اور ان کے ساتھی بہت بچکانہ انداز کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ کئی بار بلاول کی نقل کرتے ہوئے ان کے لہجے پر طنز کر چکے ہیں۔ ان کےموجودہ وزراء باقاعدگی سے دوسرے سیاستدانوں کو غلط القاب دے کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ انداز کسی بھی تحریک کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ جب اصولوں کو چھوڑ کر ذاتی پسند و ناپسند کو معیار بنا لیا جائے، تو تحریکیں زندہ نہیں رہتیں، بلکہ قصہ پارینہ بن جاتی ہیں۔
Comments are closed on this story.