ظہران ممدانی پر ہاتھوں سے چاول کھانے پر تنقید، ایشیائی افراد کا بھرپور دفاع
نیویارک کے میئر کے امیدوار ظہران ممدانی کے ہاتھ سے بریانی کھانے پر سیاسی مخالفین نے طوفان کھڑا کردیا۔ ری پبلیکن کانگریس مین برنڈن گل نے کہا مہذب لوگ اس طرح کھانا نہیں کھاتے، مغربی روایات اپنانے سےانکاری ہیں تو تیسری دنیا چلے جائیں۔ برنڈن گل کے سسر اور اہلیہ کی بھی تنقید، سوشل میڈیا صارفین نے ہاتھ سےچاول کھانے پر تنقید کو نسل پرستی قرار دے دیا۔
تنگ نظری یا سیاسی تعصب کا نشانہ، نیویارک کے میئر کے امیدوار ظہران ممدانی کی ہاتھ سے بریانی کھانے کی ویڈیو وائرل ہوتے ہی سیاسی میدان میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا ہے۔
اس واقعے پر ری پبلکن کانگریس مین برنڈن گل نے کہا کہ ”امریکہ میں مہذب لوگ اس طرح کھانا نہیں کھاتے اگر آپ مغربی روایات اپنانے سے انکار کرتے ہیں تو واپس تیسری دنیا چلے جائیں۔“
برنڈن گل کے سسر دینیش ڈی سوزا نے بھی بحث میں حصہ لیتے ہوئے لکھا کہ ”انڈیا کے دیہی علاقوں میں لوگ ہاتھ سے چاول کھاتے ہیں، لیکن امریکہ میں اسے غلیظ سمجھا جاتا ہے۔ ہاتھ سے کھانا تب قابل قبول ہے جب روٹی، نان یا پیزا ہو۔“
برنڈن گل کی اہلیہ نے بھی اپنی حمایت میں کہا، ”میں نے کبھی ہاتھ سے چاول نہیں کھائے، غریب ملک کینیا کے لوگ بھی ہاتھ سے نہیں کھاتے۔“
اس سیاسی تنقید کے مقابلے میں سوشل میڈیا صارفین نے ہاتھ سے چاول کھانے پر ہونے والی تنقید کو نسل پرستی قرار دیا ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ ہاتھ سے کھانے کو غیر مہذب کہنا ثقافتی تعصب ہے جبکہ ایک اور صارف نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ خاتون پیسوں کے لیے ہاتھ سے ڈاگ فوڈ کھاتی ہے، وہ غیر مہذب نہیں، مگر زھران کو ہاتھ سے بریانی کھانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہ منافقت ہے۔“
سیاسی مخالفین کی جانب سے ظہران ممدانی پر تنقید کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد نہ ملنے پر انہوں نے ہاتھ سے بریانی کھانے پر تنازعہ کھڑا کر دیا، لیکن ممدانی کے حامیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور وہ اس تنقید کا بھرپور مقابلہ کر رہے ہیں۔
یہ واقعہ نیویارک کی سیاست میں ثقافت، روایات اور نسل پرستی کے موضوعات کو ایک بار پھر زیر بحث لا رہا ہے، اور عوامی سطح پر بحث جاری ہے کہ کیا ہاتھ سے کھانا محض ذاتی یا ثقافتی انتخاب ہے یا اسے مہذب معاشرت میں ناپسندیدہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
سیاسی مخالفین کو ظہران ممدانی پر تنقید سے متعلق کچھ نہیں مل رہا تو ہاتھ سے بریانی کھانے پر ہی واویلا مچادیا ہے لیکن اس سے وہ کامیاب نہیں ہوپائیں گے کیونکہ ظہران ممدانی کے حامیوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔
Comments are closed on this story.