تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان جنگ کیوں چھڑی ہوئی ہے؟
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان متنازع سرحدی علاقوں میں ایک بار پھر شدید جنگ چھِڑ گئی ہے، جہاں دونوں ممالک ایک دوسرے پر حملوں کا الزام لگا رہے ہیں۔ تازہ جھڑپوں میں تھائی لینڈ نے فضائی حملے بھی کیے ہیں، جس میں اس نے کہا ہے کہ کمبوڈین فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا گیا ہے۔ یہ صورتحال اس جنگ بندی کے لیے بڑا چیلنج ہے جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جولائی میں کرائی تھی۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پیر کی صبح دونوں ممالک کی فوج کے درمیان کشیدگی کا آغاز ہوا۔ تھائی فوج کے مطابق سرحد کے پانچ مختلف مقامات پر جھڑپیں ہوئیں۔
کمبوڈیا کی وزارتِ دفاع نے کہا کہ ان کی فورسز پر حملہ ہوا لیکن انہوں نے جوابی کارروائی نہیں کی اور وہ جنگ بندی کی پاسداری کر رہے ہیں، لیکن تھائی لینڈ کی جانب سے متعدد اشتعال انگیز اقدامات کیے گئے۔
ادھر تھائی فوج نے بھی دعویٰ کیا کہ اس کے اہلکاروں پر حملہ ہوا اور کمبوڈیا نے بی ایم-21 راکٹ نظام سے شہری علاقوں کی طرف فائرنگ کی۔ تھائی لینڈ کے مطابق کمبوڈین فورسز گرینیڈ لانچرز، آرٹلری اور ڈرونز کے ذریعے اس کے فوجی ٹھکانوں پر دھماکہ خیز مواد گرا رہی ہیں۔
تھائی فضائیہ نے تصدیق کی کہ اس کے جنگی طیاروں نے صبح سویرے فضائی حملے کیے، جن کا نشانہ مبینہ کمبوڈین فوجی تنصیبات تھیں۔ فضائیہ کا کہنا تھا کہ ان حملوں کی بنیاد ان آپریشنل رپورٹوں پر تھی جن سے پتا چلا کہ کمبوڈیا نے بھاری اسلحہ تعینات کردیا ہے اور اپنی جنگی اکائیاں دوبارہ منظم کرلی ہیں۔
فضائیہ کے مطابق یہ حملے کسی بڑے تصادم کو روکنے اور کمبوڈیا کی فوجی صلاحیت کو محدود کرنے کے لیے کیے گئے۔
تھائی حکام کے مطابق جھڑپوں کے پیشِ نظر 3 لاکھ 80 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے، جبکہ کمبوڈین حکام کے مطابق اوڈر مینچی صوبے سے 1 ہزار 157 افراد کے خاندانوں کو منتقل کر دیا گیا ہے۔
یہ تازہ جھڑپیں جولائی کے بعد سب سے شدید ہیں، جب پانچ روزہ لڑائی میں دونوں جانب سے راکٹ اور بھاری توپ خانہ استعمال کیا گیا تھا۔ وہ جھڑپیں کئی دہائیوں کی بدترین کشیدگی تھیں جن میں کم از کم 48 افراد ہلاک اور 3 لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے، جس کے بعد ٹرمپ کی مداخلت سے جنگ بندی ممکن ہوئی تھی۔
رائٹرز کے مطابق یہ واضح نہیں کہ تازہ لڑائی کس وجہ سے شروع ہوئی، مگر 10 نومبر کو ایک تھائی فوجی کے بارودی سرنگ سے زخمی ہونے کے بعد سے تناؤ جاری تھا۔ اس واقعے کے بعد تھائی لینڈ نے وہ تمام ڈی اسکیلیشن اقدامات معطل کر دیے جو چند ہفتے قبل ملائیشیا میں ٹرمپ کی موجودگی میں طے کیے گئے تھے۔
تھائی لینڈ کا کہنا ہے کہ بارودی سرنگ کمبوڈیا نے حال ہی میں بچھائی تھی اور اس وقت تک ڈی اسکیلیشن بحال نہیں کی جائے گی جب تک کمبوڈیا معافی نہیں مانگتا۔ کمبوڈیا ان الزامات کو بارہا مسترد کر چکا ہے۔
کمبوڈیا، جس نے ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا ہے، کے علاوہ تھائی لینڈ کے رہنماؤں کو بھی ٹرمپ نے گزشتہ ماہ فون کر کے جنگ بندی پر قائم رہنے کی تلقین کی تھی۔
دونوں ممالک کی فوجی طاقت کا موازنہ
فوجی طاقت کے اعتبار سے تھائی لینڈ کو کمبوڈیا پر نمایاں برتری حاصل ہے۔ تھائی لینڈ کی مسلح افواج نہ صرف تعداد میں تین گنا زیادہ ہیں بلکہ اس کا 2024 کا دفاعی بجٹ بھی کمبوڈیا سے چار گنا بڑا ہے، جس سے اس کی مجموعی عسکری صلاحیت زیادہ مضبوط دکھائی دیتی ہے۔
چینی جنگی طیاروں نے جاپانی طیاروں کو فائر کنٹرول ریڈار سے نشانہ بنایا، جاپان کا الزام
کمبوڈیا کی فوج میں تقریباً 75 ہزار اہلکار شامل ہیں، جن کے پاس 200 سے زائد جنگی ٹینک اور قریب 480 آرٹلری ہتھیار موجود ہیں۔ فضائیہ کے معاملے میں کمبوڈیا نسبتاً کمزور ہے، جس کے پاس 16 ملٹی رول ہیلی کاپٹر تو ہیں لیکن ایک بھی جنگی طیارہ موجود نہیں۔
اس کے برعکس، تھائی لینڈ کی فوج 2 لاکھ 45 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ہے، جس کے پاس تقریباً 400 ٹینک، 1,200 سے زیادہ بکتر بند گاڑیاں اور 2,600 آرٹلری ہتھیار موجود ہیں۔ فضائیہ بھی کہیں زیادہ طاقتور ہے، جس میں تقریباً 40 جدید جنگی طیارے اور درجنوں ہیلی کاپٹر شامل ہیں۔
مجموعی طور پر، عسکری طاقت کے اس واضح فرق نے اس تنازعے کی سنگینی اور کسی بڑے تصادم کی صورت میں ممکنہ عدم توازن کو نمایاں کر دیا ہے۔














