حادثے کے 15 سال بعد دنیا کا سب سے بڑا نیوکلیئر پلانٹ دوبارہ چلانے کی تیاری

قدرتی آفت کے نتیجے میں فوکوشیما ڈائیچی پلانٹ تباہ ہوگیا تھا، جو یوکرین میں چرنوبل کے بعد بدترین جوہری حادثہ سمجھا جاتا ہے
شائع 22 دسمبر 2025 10:15am

جاپان دنیا کے سب سے بڑے نیوکلیئر پاور پلانٹ کو دوبارہ فعال کرنے کے آخری مرحلے میں داخل ہوگیا ہے، جہاں نیگاٹا کے علاقے میں پیر کو پلانٹ کی بحالی سے متعلق ووٹنگ کی جارہی ہے، جسے فوکوشیما حادثے کے تقریباً 15 سال بعد جاپان کی جوہری توانائی کی جانب واپسی کا اہم موڑ قرار دیا جا رہا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق کاشیوازاکی کاریوا (Kashiwazaki-Kariwa) نیوکلیئر پاور پلانٹ، جو ٹوکیو سے تقریباً 220 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے، اُن 54 ری ایکٹرز میں شامل تھا جنہیں 2011 کے زلزلے اور سونامی کے بعد بند کردیا گیا تھا۔ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں فوکوشیما ڈائیچی پلانٹ تباہ ہوگیا تھا، جو یوکرین میں چرنوبل کے بعد بدترین جوہری حادثہ سمجھا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت جاپان کے 33 قابلِ استعمال ری ایکٹرز میں سے 14 کو دوبارہ فعال کیا جاچکا ہے، جبکہ حکومت درآمدی فوسل فیول پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کاشیوازاکی کاریوا وہ پہلا نیوکلیئر پلانٹ ہوگا جسے ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی (ٹیپکو) دوبارہ فعال کرے گی، یہی کمپنی فوکوشیما پلانٹ کی بھی آپریٹر تھی۔

ووٹنگ سے قبل پیر کو نیگاٹا صوبائی اسمبلی کے باہر تقریباً 300 مظاہرین جمع ہوئے، جن میں اکثریت بزرگ افراد کی تھی۔

مظاہرین نے نو نیوکلیئر پاور، کاشیوازاکی کاریوا کی بحالی کی مخالفت اور فوکوشیما کی حمایت میں نعرے لگائے۔

مظاہرے کے دوران ایک شخص نے مائیک پر سوال کیا کہ کیا ٹیپکو اس پلانٹ کو چلانے کی اہل ہے؟ جس پر مجمع نے یک زبان ہوکر نہیں کا جواب دیا۔

جاپانی سرکاری نشریاتی ادارے این ایچ کے کے مطابق، اگر ووٹنگ میں منظوری مل گئی تو ٹیپکو 20 جنوری کو پلانٹ کے سات میں سے پہلے ری ایکٹر کو دوبارہ فعال کرنے پر غور کے گی۔

ٹیپکو کے ترجمان ماساکاتسو تاکاتا نے کہا کہ کمپنی اس بات کے لیے پُرعزم ہے کہ ایسا حادثہ دوبارہ کبھی نہ ہو اور نیگاٹا کے رہائشیوں کو ماضی جیسا تجربہ نہ کرنا پڑے، تاہم انہوں نے حتمی وقت سے متعلق تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

ٹیپکو نے رواں برس نیگاٹا کے عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے آئندہ 10 برسوں میں صوبے میں 100 ارب ین کی سرمایہ کاری کا اعلان بھی کیا تھا، تاہم اس کے باوجود عوام میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔

اکتوبر میں شائع ہونے والے صوبائی سروے کے مطابق 60 فیصد شہریوں کا خیال تھا کہ پلانٹ کی بحالی کے لیے حالات ابھی سازگار نہیں، جبکہ تقریباً 70 فیصد افراد ٹیپکو کی صلاحیت پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

52 سالہ آیاکو اوگا، جو 2011 میں فوکوشیما پلانٹ کے اطراف سے نقل مکانی کرنے والے ایک لاکھ 60 ہزار افراد میں شامل تھیں، اب نیگاٹا میں آباد ہیں۔ ان کا پرانا گھر 20 کلومیٹر کے تابکار ممنوعہ زون میں واقع تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ فوکوشیما کے حادثے کے بعد سے ذہنی دباؤ جیسی علامات کا شکار ہیں اور نیوکلیئر حادثے کے خطرے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

نیگاٹا کے گورنر ہیدیئو ہانازومی، جنہوں نے گزشتہ ماہ پلانٹ کی بحالی کی حمایت کی تھی، کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں جوہری توانائی پر انحصار کم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ ایسے دور کے خواہاں ہیں جہاں توانائی کے ذرائع عوام میں خوف پیدا نہ کریں۔

پیر کو صوبائی اسمبلی گورنر ہانازومی پر اعتماد کا ووٹ دے گی، جسے پلانٹ کی بحالی کی حمایت پر عملی ریفرنڈم قرار دیا جا رہا ہے۔ جاپان کی وزارتِ تجارت کے اندازے کے مطابق صرف ایک ری ایکٹر کی بحالی سے ٹوکیو کے علاقے میں بجلی کی فراہمی میں 2 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔

وزیر اعظم سانائے تاکائیچی توانائی کے تحفظ اور درآمدی ایندھن کی بلند قیمتوں سے نمٹنے کے لیے نیوکلیئر پلانٹس کی بحالی کی حمایت کر رہی ہیں۔ اس وقت جاپان کی 60 سے 70 فیصد بجلی فوسل فیول سے پیدا ہوتی ہے، جبکہ گزشتہ سال ملک نے مائع قدرتی گیس اور کوئلے کی درآمد پر 10.7 ٹریلین ین خرچ کیے، جو مجموعی درآمدات کا دسواں حصہ تھا۔

Japan

FUKUSHIMA

15 years

restart

world's biggest nuclear plant