افغان طالبان کا پاکستان سے مصالحت کا اشارہ؛ ’مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں‘
افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے کہا ہے کہ افغانستان کسی بھی ریاست کے لیے خطرہ نہیں اور موجودہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے بات چیت کا راستہ کھلا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسائل کا حل تصادم میں نہیں بلکہ مذاکرات میں ہے اور افغان حکومت اس حوالے سے سنجیدہ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
کابل پولیس اکیڈمی کی گریجویشن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سراج الدین حقانی نے کہا کہ افغان طالبان دوحہ معاہدے کے تحت کیے گئے وعدوں پر قائم ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔
افغان طالبان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق انہوں نے عالمی برادری کو یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ افغانستان خطے میں عدم استحکام کا سبب بننے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
تاہم زمینی حقائق یہ ہیں کہ ماضی میں دی جانے والی یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان میں سرحد پار سے دراندازی اور حملوں کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں، جس پر اسلام آباد مسلسل تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔
اگرچہ سراج الدین حقانی نے اپنے خطاب میں پاکستان کا نام نہیں لیا، لیکن ان کے بیان کو پاکستان کے اس دیرینہ مؤقف کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے جس میں کابل سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف مؤثر کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔
پاکستان کی جانب سے بھی سرکاری سطح پر سراج الدین حقانی کے بیان پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم، قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب خان شیرپاؤ نے ہفتے کو سراج الدین حقانی کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’افغان وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی کا یہ بیان کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور دوحہ معاہدے کے تحت اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو، خاصی اہمیت رکھتا ہے۔‘
آفتاب شیرپاؤ کے مطابق، ’اس کی وجہ یہ ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان بنیادی طور پر انہی سے بیعت رکھتی ہے اور طویل عرصے سے افغانستان کے اُن علاقوں سے سرگرم رہی ہے جو سراج الدین حقانی کے کنٹرول میں رہے ہیں۔‘
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات حالیہ برسوں میں سرحدی جھڑپوں اور سیکیورٹی خدشات کے باعث کشیدہ رہے ہیں۔
اکتوبر 2025 سے دونوں ممالک کے درمیان سرحدی گزرگاہیں بند ہیں، جس سے نہ صرف سیکیورٹی بلکہ تجارت اور عوامی رابطوں پر بھی اثر پڑا ہے۔ ترکیہ اور متحدہ عرب امارات نے دونوں فریقین کے درمیان مفاہمت کرانے کی کوششیں کیں، مگر یہ کوششیں تاحال کسی ٹھوس نتیجے تک نہیں پہنچ سکیں۔
پاکستانی حکام کا مؤقف رہا ہے کہ افغانستان ٹی ٹی پی کے حوالے سے تحریری ضمانت دینے سے گریزاں ہے، جبکہ اسلام آباد کے مطابق اسی تنظیم کے جنگجو طویل اور غیرمحفوظ سرحد کے ذریعے پاکستان میں داخل ہو کر حملے کرتے رہے ہیں۔
دوسری جانب افغان طالبان اس الزام کی تردید کرتے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔
اسی پس منظر میں سراج الدین حقانی کے بھائی انس حقانی قطر اور ترکیہ میں پاکستانی حکام کے ساتھ ہونے والے مذاکراتی عمل میں افغان وفد کا حصہ بھی رہے ہیں۔
چیئرمین قومی وطن پارٹی نے امید ظاہر کی کہ ’دوحہ میں جو کچھ طے پایا تھا، اس پر اب حقیقی معنوں میں عمل کیا جائے گا اور معاہدے کی روح اور الفاظ دونوں کے مطابق پیش رفت ہوگی۔‘













