بڑے ہوکر ڈاکٹر بنوگے یا انجینئر؟؟؟

شائع 16 اپريل 2016 10:13am

7987987

تحریر: سید محمد مدثر

بی بی سی نے حال ہی میں  لندن میں مقیم ایسے بچے کی خبر لگائی ہے جس  کا آئی کیو لیول   بیسویں صدی کے عظیم ترین سائنسدان  آئنسٹائن اور اسٹیون ہاکنگ سے بھی  زیادہ ہے۔ اوم امین جو   چھٹی جماعت کا طالب علم اور برطانیہ میں مقیم ہے۔اس  نے  ہائی آئی کیو سوسائٹی مینسا کے ٹیسٹ میں دونوں انتہائی ذہین دماغوں سے دو پوائنٹ زیادہ اسکور کیے ہیں۔ اوم امین روبک کیوب کو دو سے بھی کم منٹ میں مکمل کر لیتا ہے۔لیکن اس خبر میں جس بات نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا۔وہ تھی  اس بچے کی مستقبل میں ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی خواہش۔۔۔یعنی دنیا کا سب سے ذہین بچہ بھی بڑا ہوکر ڈاکٹر اور انجینئر ہی بننا چاہتا ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈاکٹر یا انجینئر بننا کوئی فطری عمل ہے۔جو ہر بچہ یہی چاہتا ہے۔

اوم امین کے خاندانی پس منظر کو دیکھیں تو بی بی سی کے مطابق اس کی دادی اور والدین نو سال پہلے بھارتی گجرات سے برطانیہ منتقل ہوئے ۔ یعنی  اوم کی پیدائش   بھارت کی ہی ہے۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی بچے کا ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی خواہش دراصل فطری نہیں۔یہ برصغیر کے لوگوں کے دماغ کی بیماری ہے۔جو بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی یہ طے کردیتے ہیں کہ بچہ یا تو ڈاکٹر بنے گا یا انجینئر۔اور پھر شروع ہوتی ہے ایسی ریس جس میں کامیابی ہر حال میں لازم ہے۔کیوں کہ اچھے نمبر نہیں  لاو گے تو اچھے کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ملے گا۔ اچھے تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں ملے گا تو بچہ ڈاکٹر یا انجنیئر کیسے بنے گا۔

پاکستان اور بھارت میں کبھی کوئی بچے سے یہ نہیں پوچھتا کہ بیٹا تو کیا بننا چاہتا ہے۔۔اس کی تازہ مثال حال میں ہمدرد یونیورسٹی   میں بی ڈی ایس کا طالب علم باسط  ہے۔ شاید باسط کے ذہن میں بھی بچپن سے ہی یہ بات بٹھادی گئی تھی۔۔کہ بیٹا بننا ہے تو ڈاکٹر ہی بننا ہے۔۔اور وہ بھی ایسا ویسا ڈاکٹر نہیں۔ڈینٹسٹ ہی بننا ہے۔ تب ہی تو کئی سال فیل ہونے کے با وجود باسط نے بی ڈی ایس مکمل ہونے کی ہر کوشش کرڈالی۔

لیکن شاید منزل کے قریب آکر  قسمت نے اس کا ساتھ چھوڑدیا۔ باسط  امتحانی مرکز تک پہنچے میں لیٹ ہوگیا۔ استاد نے امتحان میں بیٹھنے نہ دیا۔باسط نے خوب منت سماجت کی۔ لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔۔آخر کار دل ہارے باسط نے زندگی بھی ہاردی۔۔

یونیورسٹی انتظامیہ باسط کی موت کو خودسوزی جب کہ اس کے والدین قتل قرار دے رہے ہیں۔ بے شک یہ قتل ہی ہے۔ لیکن اس قتل کا ذمہ دار کوئی شخص نہیں ۔بلکہ بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کی  ہماری دماغی  بیماری ہے۔ تو بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کے بجائے اچھا انسان بنائیں۔ اپنے پیشے کا فیصلہ وہ خود کرلیں گے۔

نوٹ:آج ٹی – وی ۔کا رائٹر اور اس آرٹیکل پر دئیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔۔

مضمون ذاتی آراء پر مبنی ہے، کسی کا ان خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔