کراچی کا مشہور تاریخی ورثہ بربادی کی دہلیز پر
1947 میں پاکستان کی آزادی پر جب انگریز بر صغیر سے گئے تو اپنی بنائی ہوئی عمارتیں چھوڑ گئے۔ آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد اور افراتفری میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بنائی گئی قدیم عمارتوں کی دیکھ بھال پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ان عمارتوں کے اصل مالکان یہاں بسنے والے ہندو اور مسلمان تھے۔
اب یہ حال ہے کہ یہ تاریخی عمارتی ورثہ شدید خستہ حالی کا شکار ہے۔ کچھ عمارتیں مکمل طور پر مسمار کر دی گئی ہیں۔ اور جو باقی ہیں وہ ٹوٹی پھوٹی حالت میں کھڑی ہیں۔
کراچی پاکستان کا تجارتی گڑھ ہے۔ یہاں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ضرورتِ رہائش نے ریئل اسٹیٹ ڈویلپرز کو کاروبار کا بہانا دے دیا ہے۔ اور اب وہ ان پرانی خستہ حال عمارتوں کو گِرا کر شہر کو جدید طرز کی بلند و بالا عمارتوں سے ڈھک دینا چاہتے ہیں۔
جہانگیر کوٹھاری پریڈ کی روش کو سڑکوں پر بنائے گئے اونچے پُلوں نے ڈھک دیا ہے۔ البتہ یہ ان چند عمارتوں کا حصہ ہے جن کا پرانا جاہ و جلال بحال کر دیا گیا ہے۔ لیکن ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے، کیونکہ یہاں نئی عمارتیں بنانے کو فوقیت دی جا رہی ہے۔
تیزی سے عمل میں آنے والی ترقی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر قدیم عمارتوں کی مسماری کی گئی ہے۔ بہرحال جدید عمارتوں کے بیچ بھی تاریخی باقیات کی میراث الگ نظر آتی ہے۔ البتہ ان کے منفرد نظر آنے کی وجہ ان سے برتی گئی غفلت ہے۔
صدر کے علاقے اس تاریخی ورثے کا مرکز ہیں۔ صوبہ سندھ کے محکمہ برائے تاریخی اثاثہ نے انگریزوں کی بنائی مشہور جیل کے علاوہ ایک ہزار سات سو اور مقامات کو تاریخی مقام قرار دے دیا ہے۔
1994 میں متعارف کرائے جانے والے سندھ کلچرل ہیریٹیج پریزرویشن ایکٹ نے تاریخی مقامات کی قانونی حفاظت فراہم کرنے میں مدد دی ہے۔ لیکن عدالتوں میں جدید عمارتوں کے حق میں لڑے جانے والے مقدمے تاریخ کی حفاظت کو ٹالنے میں مصروف ہیں۔
بشکریہ reuters

















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔