Aaj News

جمعہ, اپريل 26, 2024  
18 Shawwal 1445  

سپریم کورٹ نے تنسیخ نکاح اور خلع میں فرق واضح کردیا، عورت مہر سے محروم نہیں ہوگی

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ 'ظلم' کی بنیاد پر خاتون کی طلاق کی درخواست کو خلع کے طور پر نہیں سمجھا جائے گا۔
شائع 22 دسمبر 2022 08:23pm
فائل فوٹو
فائل فوٹو

بدھ کے روز سنائے گئے ایک تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ نے خلع کے ذریعے تنسیخ نکاح سے متعلق اپیل کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فیملی کورٹ کے شوہر کی طرف سے کیے گئے جسمانی یا ذہنی ظلم کی بنیاد پر شادی تحلیل کئے جانے کے فیصلے کو بحال کردیا۔

طیبہ عنبرین اور ان کی بیٹی نے پشاور ہائی کورٹ کے جون 2019 کے فیصلے جس میں تنسیخ نکاح کو خلع قرار دیا گیا تھا، کو چیلنج کرتے ہوئے درخواست دائر کی تھی۔ مذکورہ فیصلے سے وہ اپنے شوہر سے ملنے والے مہر، جہیز، طبی اخراجات اور کفالت کے لیے نااہل ہو گئی تھیں۔

فیملی کورٹ نے جولائی 2014 میں خاتون کے حق میں فیصلہ سنایا تھا، جسے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج فائیو نے نومبر 2015 میں اس وقت پلٹ دیا، جب شوہر کی جانب سے ازدواجی حقوق سے محرومی کا حوالہ دیتے ہوئے فیملی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا۔

تنسیخ نکاح کو خلع میں تبدیل کرنے کے بعد عدالت نے خاتون کو پانچ تولہ سونا شوہر کو واپس کرنے کا حکم دیا۔ اس فیصلے کو بعد میں ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔

تاریخی فیصلہ

سپریم کورٹ کے جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپیل کی سماعت کی اور درخواست گزاروں کے حق میں فیصلہ بحال کرتے ہوئے اپیلٹ کورٹس کے غیر قانونی فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ جب بیوی نے ظلم کی بنیاد پر طلاق مانگی، شوہر نے ’اپنے تمام تر بے رحم، ظالمانہ اور جابرانہ طرز عمل یا رویے کے باوجود‘ ازدواجی حقوق کا دعویٰ کیا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا شوہر کا بیوی کے دعوے کے بدلے ازدواجی حقوق پورے نہ کرنے کا دعویٰ مہر کی ادائیگی سے بچنے کا محرک ہو سکتا ہے۔ جس میں وہ اپیل کورٹ کے ذریعے کامیاب ہوا۔

فیصلے میں نوٹ کی گیا کہ ”تنسیخ نکاح مہر، جہیز اور نان نفقہ کے دعوے کے جواب میں شوہر کی طرف سے ازدواجی حقوق کا دعویٰ کرنے پر عدالت کی ایک بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھے کیا وہ اپنی بیوی کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو خلوص نیت سے ادا کر رہا ہے، بجائے اس کے کہ مردانہ شاونزم کو ترغیب دی جائے۔“

مردانہ شاونزم ان افکار اور نظریات کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جو ایک مرد کے غلبے اور عورت کو نظرانداز کرنے کی تبلیغ کرتے ہیں، اس کے تحت مرد خود کو مخالف صنف سے بالاتر تسلیم کرتے ہیں۔

عدالت نے اسلامی فقہ سے جسمانی اور ذہنی ظلم کی تعریفیں، رسول اللہ صلوسلم عل کے اقوال، امریکی اور برطانوی اصولوں کے ساتھ ساتھ ظلم کی اصطلاح کی لغت کی تعریفوں کا حوالہ دیتے ہوئے اپیلٹ کورٹس کی سرزنش کی۔

عدالتِ عظمیٰ نے ”محمدی قانون کے اصولوں“ کے باب XIV میں ’شادی‘ کے سیکشن سے حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’شوہر اپنی بیوی کے اخرجات اٹھانے کا پابند ہے (وہ ازدواجی مباشرت کے لیے بہت چھوٹی نہ ہو)، جب تک کہ وہ اس کی وفادار ہے اور اس کے معقول احکامات کی تعمیل کرتی ہے۔

”لیکن وہ کسی ایسی بیوی کے اخراجات اٹھانے کا پابند نہیں جو خود کو اسے سونپنے سے انکار کرے، یا دوسری صورت میں نافرمان ہو۔ بشرطیکہ انکار یا نافرمانی فوری مہر کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ہویا شوہر کے ظلم کی وجہ سے بیوی اس کا گھر چھوڑ دے۔“

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ “ بیوی بغیر قانونی وجوہات کے اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چھوڑ دیتی ہے تو شوہر بیوی پر ازدواجی حقوق کی واپسی کے لیے مقدمہ کر سکتا ہے۔“

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اس طرح کے دعوے کو مہر یا نان نفقہ الاؤنس کے دعوے کے دفاع یا رکاوٹ کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے، بلکہ اسے نیک نیتی کے ساتھ درج کیا جانا چاہیے اور میاں بیوی کے درمیان معاملات میں مصالحت اور اصلاح کے لیے مخلصانہ نیت کے ساتھ درج کیا جانا چاہیے۔ ازدواجی بندھن کو عزت، مہربانی اور شوہر کی ذمہ داریوں کی تکمیل کے ذریعے بچانے کے لیے، نہ کہ نفقہ الاؤنس یا مہر کی رقم کے دعوے پر لڑنے یا مایوس کرنے کے لیے اس کا استعمال کیا جائے۔

اپیل کورٹس کو ہدایت

فیصلے میں کہا گیا کہ اپیلٹ کورٹس کا مقصد شواہد کو دوبارہ پرکھنا یا گواہوں کی ساکھ کو جانچنے کی کوشش کرنا ہے، لیکن صرف ٹرائل کورٹ ہی گواہوں کی امانت اور ساکھ کا فیصلہ کرنے کی خصوصی پوزیشن میں ہے۔

”عام طور پر اپیلٹ کورٹ شواہد کی بنیاد پر نتائج کا احترام کرتی ہے اور اس طرح کے نتائج کو اس وقت تک رد نہیں کرتی جب تک کہ یہ غلط نہ ہوں۔“

عدالتِ عظمیٰ کا فیصلے میں مزید کہنا تھا کہ اپیل کورٹس کا کام نہیں ہے کہ وہ شواہد کی تشریح کریں۔ اس کے بجائے، ان کا کام سادہ معنی پر غور کرنا اور اس بات کا تعین کرنا ہے کہ ثبوت پیش کئے جانے کے دوران فریقین یا ان کے گواہوں کی جانب سے دی جانے والی گواہیوں کے نتیجے میں اصل ماجرا کیا ہے۔ ”اپیل کورٹ مفروضے یا قیاس آرائیوں کی بنیاد پر اپیل کا فیصلہ نہیں دے سکتا۔“

اس میں نوٹ کیا گیا کہ درخواست گزار نے اپنا مقدمہ ثابت کر دیا تھا، ساتھ ہی پشاور ہائی کورٹ کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے فیصلے کی توثیق کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا، اس حقیقت کو سمجھے بغیر کہ مقدمے کی سماعت کے دوران درخواست گزار نمبر 1 کی جانب سے بدسلوکی اور ظلم کے الزامات کو تسلی بخش ثابت کیا گیا تھا۔’

پاکستان میں طلاق

پاکستان میں جب طلاق کی بات آتی ہے تو تعداد کافی کم ہے۔ لیکن تعداد کی یہ کمی ایک قدامت پسند ذہنیت اور اس سے وابستہ سمجھے جانے والی سماجی بدنامی کی وجہ سے۔

سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سندھ میں 5,198 خواتین نے 2020 میں وبائی امراض کے دوران خلع کے ذریعے شادی کو ختم کرنے کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا۔

راولپنڈی میں 2019 کے پہلے گیارہ مہینوں میں طلاق، خلع، نفقہ اور سرپرستی کے 10 ہزار 312 واقعات رپورٹ ہوئے۔ کم رپورٹنگ کی وجہ سے کیسز کی تعداد ہر سال کافی حد تک مختلف ہوتی ہے۔

پاکستان

Supreme Court of Pakistan

Divorce

Family Court

Dissolution of Marriage

Khula

family Law

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div