Aaj News

منگل, مئ 21, 2024  
12 Dhul-Qadah 1445  

کہکشائیں صرف 100 برس پرانی ہیں

5 اور 6 اکتوبر 1923 کی درمیانی رات ایک تصویر لی گئی جس نے سب کچھ بدل دیا
شائع 15 اکتوبر 2023 07:09pm

سو سال پہلے 5 اور 6 اکتوبر 1923 کی درمیانی شب انسانوں کو پہلی بار کہکشاؤں کا علم ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب ایک ماہر فلیکیات ایڈون ہبل نے ایک کہکشاں کی تصویر لی جسے انہوں نے ”میسیئر 31 نیبولا“ کا نام دیا اور ہم آج اسے ”اینڈرومیڈا“ کے نام سے جانتے ہیں۔

ہبل پہلے انسان تھے جنہوں نے تصویر لینے کیلئے فوٹو گرافی کی پلیٹ کا استعمال کیا۔ جس پلیٹ کے ساتھ انہوں نے مشہور تصویر عکسن بند کی اس کی پیمائش تقریباً 1013x سینٹی میٹر اسکوئر تھی.

انہوں نے ماؤنٹ ولسن آبزرویٹری میں 100 انچ کی ”ہوکر“ دوربین کے ذریعے 45 منٹ تک ڈیٹا لیا، جو اب لاس اینجلس کا ایک بہت زیادہ روشنی سے آلودہ حصہ ہے۔

ہم H335H نامی اس فوٹو گرافی پلیٹ کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ کہکشاؤں کا پیدائشی سرٹیفکیٹ ہے اور جو ان کے وجود کا پہلا ریکارڈ ہے۔

یہ تصویر کچھ خاص مشہور نہیں ہے لیکن اسے مشہور ہونا چاہیے، اس پر سرخ رنگ میں ہبل کی جانب سے ”VAR!“ لکھا گیا ہے اور ایک ستارے کے ساتھ ”N“ درج کیا گیا ہے۔

 ایڈون ہبل کی تصویر بزریعہ کارنیگی انسٹی ٹیوشن فار سائنس
ایڈون ہبل کی تصویر بزریعہ کارنیگی انسٹی ٹیوشن فار سائنس

ابتدائی طور پر، انہوں نے تصویر میں نظر آنے والی ایک چھوٹی چیز کی شناخت ”نووا“ کے طور پر کی تھی، ایک ستارہ جس کی چمک میں تصادفی اور مختصر طور پر اضافہ ہو گا، جو ختم ہو جائے گی اور پھر آہستہ آہستہ یہ ستارہ مرجائے گا۔

لیکن اس رات، ہبل نے حیران کن طور پر دریافت کیا کہ ستارے کی چمک وقتاً فوقتاً مختلف ہو رہ تھی۔

یہ بالکل وہی تھا جس کی انہیں تلاش تھی۔

1923 کی اس موسم خزاں کی رات کو ہوئی اس نام نہاد عظیم بحث کو تین سال گزر چکے تھے، جس میں اس بات پر بحث کی گئی تھی کہ آیا ملکی وے ہی پوری کائنات ہے یا اس جیسی دوسری جگہیں بھی ہو سکتی ہیں۔

”دوسری“ کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا کیونکہ اس وقت کوئی لفظ موجود نہیں تھا جسے آج ہم ”گیلیکسیز“ (کہکشاؤں) کے نام سے جانتے ہیں۔

اُس عظیم بحث میں دو آپشنز زیر بحث آئے۔ ایک میں کہا گیا کہ کہ چکری نما نیبولا جیسا کہ ”میسیئر 31“ ہمارے ملکی وے کا حصہ ہے۔ جبکہ دوسرا امکان یہ تھا کہ وہ ہمار گیلیکسی کی حدود سے باہر اسی طرح کی دوسری چیز تھی۔

اس بحث میں، دونوں امکانات کے لیے دلائل پیش کیے گئے، لیکن بحث میں جیت حاصل کرنے والا وہ آپشن کہ کائنات ہماری ملکی وے کے سائز تک محدود تھی تین سال بعد غلط ثابت ہوا۔

اس عظیم بحث کے اختتام پر ہبل کو شاید مایوسی ہوئی تھی، کیونکہ وہ ایک انتہائی بنیادی لیکن اہم سوال کا جواب کرنے کی کوشش میں لگے رہے کہ ”کائنات کتنی بڑی ہے؟“

اور اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے، وہ ستارے کی ایک مخصوص قسم کی تلاش کر رہے تھے جو پہلے دریافت ہوچکا تھا۔

1784 میں میسئیر کی دریافت کے تقریباً ایک صدی کے بعد 1908 میں سائنس نے آہستہ آہستہ ترقی کی اور ماہر فلکیات ہینریٹا سوان لیویٹ نے دریافت کیا کہ ان ستاروں کی تغیر پذیری کی مدت ان کی روشنی پر منحصر ہے۔

ان ستاروں کو سیفائیڈز کے نام سے جانا جاتا ہے، کیونکہ پہلا دریافت کیا گیا سیفیوس برج کا چوتھا روشن ستارہ تھا، جس کا نام اینڈرومیڈا کے والد کے نام پر رکھا گیا تھا۔

لہذا، اس کا نام ڈیلٹا سیفی ہے اور یہ ایسے ستاروں، سیفائیڈز کے لیے کوالیفائر ہے۔

ہبل جانتے تھے کہ سیفائیڈز کی یہ عظیم خاصیت جو کائنات نے ہمیں دی ہے اسے دور کی اشیاء کے فاصلے کا تعین کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ہمیں صرف سیفائیڈز کو تلاش کرنے، ان کی تغیر پذیری کا مطالعہ کرنے، ان کی مدت کا تعین کرنے کی ضرورت ہے (ان سب کے لیے بہت زیادہ صبر اور انسانی کمپیوٹر کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے)، اور ہم اسے ان کی اندرونی طاقت کا حساب لگانے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں (وہ توانائی جو وہ فی سیکنڈ چھوڑتے ہیں)۔

فلکی طبیعیات کے ماہرین اس کو ”لومینوسیٹی“ (روشنی) کہتے ہیں۔ اس طاقت کا ہمیں ملنے والی روشنی سے موازنہ کرکے، ہم فاصلے کا حساب لگا سکتے ہیں۔

آج، ہم کہہ سکتے ہیں کہ 5 اور 6 اکتوبر 1923 کی درمیانی رات، ہبل نے اس عظیم مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے کائنات کی وسعت کو دریافت کیا۔

اس رات اور اس کے بعد کے ہفتوں میں اپنے مشاہدات کے ساتھ ہبل نے اینڈرومیڈا تک کا فاصلہ تقریباً 2 ملین نوری سال کے حساب سے لگایا۔

اس وقت معلوم ہونے والے بہت سے دوسرے نیبولا ان 2 ملین نوری سالوں سے زیادہ فاصلے پر تھے، جنہیں ہبل اور دیگر ماہرین فلکیات نے لگاتار آنے والے سالوں میں ناپا۔

ان تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا تھا کہ دیگر ملکی ویز یا کہکشائیں موجود ہیں۔

کہکشاؤں کی یہ نئی اصطلاح، سائنس کی ایک نئی شاخ، کائنات کے ایک بالکل نئے تصور کی پیدائش تھی۔

100 سال پہلے اس رات، ہم نے یہ جاننے کے لیے ڈیٹا لیا کہ کائنات بہت بڑی ہے، اس کا سائز ہمارے کیمرے کے شٹر کی جھپک میں ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔

Galaxies

Universes