Aaj News

بدھ, مئ 15, 2024  
07 Dhul-Qadah 1445  

بحریہ ٹاؤن کے برطانیہ سے آئے 190 ملین پاؤنڈ وفاقی حکومت کو منتقل

باقی رقم سندھ حکومت کو ملے گی، بظاہر بحریہ ٹاؤن زیادہ زمین پر قابض ہے، سپریم کورٹ
اپ ڈیٹ 24 نومبر 2023 12:37pm
بحریہ ٹاؤن کراچی کا ایک منظر
بحریہ ٹاؤن کراچی کا ایک منظر

عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جمع سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی سندھ حکومت کو دینے حکم دیا ہے۔

بیرون ملک سے آنے والی رقم جو اس وقت کے زرمبادلہ کے حساب سے 35 ارب روپے بنتی تھی حکومت پاکستان کو دی جائے گی جبکہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے پاکستان میں سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں جمع کرائے گئے 30 ارب روپے سندھ حکومت کو دیئے جائیں گے۔

اس حوالے سے نیشنل بینک آف پاکستان کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔

عدالت نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں رقم نہیں رکھی جا سکتی۔

عدالت عظمی نے بحریہ ٹاؤن کے الاٹیز کے مالکانہ حقوق کا بھی اپنے حکم نامے میں ذکر کیا ہے۔

جمعرات کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کی سماعت ہوئی جس میں بحریہ ٹاؤن کے سی ای او ملک ریاض کی جانب سے جواب جمع کرایا گیا اور کمشنر کراچی کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کی سروے رپورٹ پیش کی گئی۔

گزشتہ روز مشرق بینک نے بھی اپنا جواب جمع کرایا تھا، جس میں کئی انکشافات سامنے آئے تھے۔

دوران سماعت سندھ حکومت سندھ حکومت نے لندن سے سپریم کورٹ کو موصول رقم پر دعویٰ کردیا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ برطانیہ سے آئی رقم بھی سندھ حکومت کو دی جائے، یہ ہماری ہے۔

سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے حکمنامہ لکھوایا جس میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے بتایا انہیں عدالتی فیصلے کی روشنی میں سولہ ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین ملنا تھی۔

حکمنامے کے مطابق اکیس مارچ 2019 کا سپریم کورٹ کا فیصلہ بحریہ ٹاؤن کی رضامندی پر تھا، بحریہ ٹاؤن نے سات سال میں 460 ارب روپے ادا کرنے تھے۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن نے یکطرفہ طور پر اقساط کی ادائیگی روک دی، وکیل بحریہ ٹاؤن کے مطابق زمین مکمل نہ ملنے پر ادائیگیاں روکیں، وکیل بحریہ ٹاؤن کے مطابق جو زمین ملی اس پربجلی کی تاریں گیس پائپ لائنز، نالے اور کئی گوٹھ ہیں۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ سروے رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن کا 16896 ایکڑ سے زائد زمین پر قبضہ ہے، بحریہ ٹاؤن نے اضافی زمین پر بھی قبضہ کررکھا ہے، متعلقہ حکام کی مدد کے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا تھا، سرکاری حکام نے عوام اور صوبائی حکومت کے مفاد کو سرینڈر کیا، سرکاری حکام نے اپنے آفس کا غلط استعمال کیا، سرکاری حکام کا کام عوام کی خدمت کرنا ہے۔

حکمنامے کے مطابق ایڈوکیٹ جنرل نے یقین دہانی کروائی کہ غفلت کے مرتکب افسران کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے حکم نامے میں لکھوایا کہ لوگ زمین کا ایک ٹکڑا خریدنے کیلئے عمربھر کی جمع پونجی لگاتے ہیں، سب خرچ کرنے کے بعد لوگ ڈویلپر کے رحم کرم پر ہوتے ہیں۔

حکمںامے میں مزید کہا گیا کہ صرف بحریہ ٹاؤن یا سندھ حکومت سے متعلق یہ ابزرویشن نہیں، توقع ہے تمام حکومتیں آلاٹیز کو تحفط دینے کیلئے اقدامات کریں گی۔

حکمنامے کے مطابق ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ حکومت کے پاس الاٹیز کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا، یہ ایک سنجیدہ معاملہ عدالت کے سامنے آیا ہے۔ حکومتی سطح پر الاٹیز کا ریکارڈ نہ رکھے جانے پر لوگوں کو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں ریکارڈ محفوظ کرنے کا نظام کیا جاسکتا ہے، ریکارڈ محفوظ کرنے کا نظام بہتر ہونے سے لوگ الاٹمنٹ سے متعلق خود معلومات لے سکتے ہیں، حکومتی سطح پر ریکارڈ محفوظ رکھنے سے غیر ضروری عدالتی کارروائی کا خاتمہ ہو گا، حکومتی سطح پر ریکارڈ رکھنے سے ایک ہی پلاٹ کئی لوگوں کو آلاٹ کرنے کی مشق بھی ختم ہو گی۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ حکومت سندھ پہل کر کے مشعل راہ بن سکتی ہے۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ وکیل بحریہ ٹاؤن نے سروے آف پاکستان کی رپورٹ پر اعتراض اٹھایا، وکیل بحریہ ٹاؤن نے کہا اپنے اعتراضات دائر کرنے کیلئے وقت چاہیے۔

حکمنامے کے مطابق ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ سروے کے دوران بحریہ ٹاؤن کی سروے ٹیم بھی ساتھ موجود تھی۔

حکمنامے کے مطابق وکیل بحریہ ٹاؤن نے بارہا کہا کہ زمین پوری نہ ملنے پر ادائیگیاں روکی، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا باہمی رضامندی سے کیا معاہدہ جو عدالتی حکم بن چکا ہو اس پر کوئی فریق خود سے عمل روک سکتا ہے، اس سوال کا جواب نفی میں ہی ہے۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ کئی سال تک جلد سماعت کی درخواست دائر نہ کرنا فیصلے پرعملدرآمد نہ کرنے کیلئے کیا گیا۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ بظاہر بحریہ ٹاؤن زیادہ زمین پر قابض ہے، بحریہ ٹاؤن نے ادائیگیاں نہیں روکیں بلکہ مزید زمین پر بھی قبضہ کیا، ہماری رائے میں یہ متعلقہ افسران کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی جمع کرائی گئی رقم حکومت سندھ کو دینے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے متفق ہیں، یہ رقم سپریم کورٹ اپنے پاس نہیں رکھ سکتی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ بیرون ملک سے آنے والی رقم حکومت پاکستان کو جائے گی۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ حکومت سندھ نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جمع کرنے کی درخواست کی تھی، بیرون ملک سے بھی 35 ارب روپے سپریم کورٹ اکاؤنٹ میں آئے تھے، بیرون ملک سے رقم بھیجنے والوں کو عدالت نے ان کو نوٹس بھیجنا لازم سمجھا، نوٹس کے جواب میں صرف مشرق بنک نے جواب جمع کروایا۔

حکمنا مے کے مطابق ملک ریاض حسین کی جانب سے متفرق درخواستیں میں بتایا گیا ہے کہ نیب بھی معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے، اس عدالت کے لیے مناسب نہیں ہو گا نیب میں زیر التواء معاملے پر آبزرویشن دے، ملک ریاض کی متفرق درخواست نمٹائی جاتی ہے۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ کُل 65 ارب میں سے بیرون ملک سے آئے 35 ارب وفاقی حکومت کو ملیں گے، بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جمع کرائے گئے 30 ارب روپے سندھ حکومت کو ملیں گے۔