Aaj News

پیر, مئ 20, 2024  
11 Dhul-Qadah 1445  

پسند کی شادی جرم بن گئی، اولاد کے مرنے پر دفنانے کیلئے زمین تک نہ دی گئی

گاؤں والوں نے چار ماہ کی بچی کو دفنانے سے انکار کردیا
اپ ڈیٹ 08 مئ 2024 06:55pm
انتقال کرجانے والی بچی کی والدہ (دائیں) اور والد (درمیان میں) پریس کلب پر احتجاج کر رہے ہیں (تصویر: نمائندہ آج نیوز)
انتقال کرجانے والی بچی کی والدہ (دائیں) اور والد (درمیان میں) پریس کلب پر احتجاج کر رہے ہیں (تصویر: نمائندہ آج نیوز)

ملکی میڈیا کی نظروں سے دور ایک گاؤں میں جس کا شاید ہی کسی نے نام سُنا ہو، ایک جوڑا ہاتھوں میں اپنی چار ماہ کی بچی کی لاش تھامے انصاف کیلئے دنیا کی توجہ اپنی جانب کھینچنے کی ناکام سی کوشش کرتا نظر آیا، پریس کلب میں ہونے کے باوجود سوائے ایک دو صحافیوں کے اس جوڑے پر کسی کی نظر نہ گئی۔

لیکن ایک صحافی نے اس جوڑے کی ویڈیو بنا کر جب جاری کی تو دیکھنے والوں کے دل دہل گئے۔

ایک جواں سال ماں احتجاجاً ہاتھ ہوا میں اٹھائے، لوگوں سے نظریں نہ ملانے کی کوشش میں خلا پر آنکھیں جمائے، ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ان لوگوں کے نام بتانے کی کوشش کرتی دکھائی دی جنہوں نے انہیں بچی کی لاش دفنانے تک کی اجازت نہیں دی۔

لاہور میں کم عمر ملازمہ سے متعدد بار زیادتی، ملزم گرفتار

اس خاتون کا شوہر بھی صحافیوں کو معاملہ سمجھانے کی کوشش کرتا دکھائی دیا، دونوں میاں بیوی کی آوازیں آپس میں الجھ سی گئی تھیں، جوڑا بالکل اسی طرح بوکھلایا ہوا نظر آرہا تھا جیسا کہ والدین کو اپنی اولاد کے گزر جانے پر نظر آنا چاہئے۔

دونوں کی فریاد کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ جوڑے کا پسند کی شادی کرنا اتنا بڑا جرم بن گیا تھا کہ ان کی اولاد کے مرنے پر دفنانے کیلئے زمین تک نہ دی گئی۔

ستائیس سالہ عبدالحمید مہر نامی شخص نے 24 سالہ مسمت بیبل مہر نامی ایک خاتون سے گزشتہ سال مارچ 2023 میں پسند کی شادی کی تھی۔

عبدالحمید نے آج نیوز کو بتایا کہ پسند کی شادی کے بعد گاؤں والے سخت ناراض تھے، ان کے ڈر سے ہم نے گاؤں چھوڑا جس کے بعد گاؤں والوں نے جرگہ بلا کر ہم دونوں کو گاؤں سے دربدر کردیا اور گاؤں آنے پر پابندی لگا دی۔

شادی کے بعد دونوں اپنے گاؤں وریام مہر جو کہ تعلقہ قاضی احمد ضلع شہید بینظیر آباد میں واقع ہے، اس سے نکل کر قاضی احمد شہر میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔

عبدالحمید مہر قاضی احمد شہر میں محنت مزدوری کرکے گزر بسر کرتا تھا۔

چار ماہ قبل ان کے گھر اللہ نے اپنی رحمت بھیجی اور ان کی اکلوتی بیٹی نور کی پیدائش ہوئی، سب ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے کہ اچانک کچھ عرصہ قبل نور کی طبیعت خراب ہوگئی۔

گوجرانوالہ کی مقامی عدالت نے پولیس کانسٹیبل کو سزائے موت سنا دی

بچی کے والد عبدالحمید مہر کے مطابق وہ مقامی علاج سے مطمئن نہ ہونے کے بعد اپنی بیوی اور بچی کے ہمراہ علاج کیلئے کراچی گئے، لیکن وہاں ان کی بچی کی حالت خراب مزید ہوگئی۔

انہوں نے بتایا کہ وہ بچی کو لے کر کراچی کے ایک اسپتال گئے جہاں ڈاکٹر کے مطابق اسے دماغی بخار ہوگیا تھا یعنی دماغ پر بخار چڑھ گیا تھا اور حالت نازک تھی، پوری رات اسپتال میں گزری مگر افاقہ نہیں ہوسکا اور علی الصبح بچی کا انتقال ہوگیا۔

 انتقال کرجانے والی چار ماہ کی نور (تصویر: نمائندہ آج نیوز)
انتقال کرجانے والی چار ماہ کی نور (تصویر: نمائندہ آج نیوز)

انہوں نے بتایا کہ بچی کے انتقال کے بعد ہم اس کی تدفین آبائی قبرستان میں کرنے کیلئے گاؤں واپس آئے، لیکن گاؤں کے مکینوں اور ہمارے رشتہ داروں نے بچی کی لاش قبرستان میں سپردِ خاک نہیں کرنے دی۔

نواب شاہ کے گاؤں وریام کے مکینوں نے مقامی قبرستان میں والدین کو ان کی چار ماہ کی بچی کی لاش دفنانے سے منع کردیا۔

اس کے بعد عبدالحمید اور ان کی اہلیہ اپنے علاقے قاضی احمد واپس آئے اور پریس کلب میں بچی کی لاش کے ساتھ احتجاج کیا اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے تمام قصہ میڈیا کے سامنے رکھتے ہوئے اپیل کی کہ اعلیٰ حکام اس واقعے کا نوٹس لیں تاکہ ہم اپنی بچی کی لاش آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کرسکیں۔

پریس کانفرنس کے بعد جمال شاہ پولیس نے ان کی فریاد پر کان دھرے اور اپنے سپاہی والدین کے ہمراہ بچی کو دفنانے کے لئے ان کے گاؤں بھیجے جہاں بچی کو دفنایا گیا۔

تاہم عبدالحمید کے مطابق دفنانے کے فوری بعد ہی گاؤں کے مکین آگئے اور انہوں نے کہا کہ گاؤں سے نکل جاؤ ورنہ ہم تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کریں گے جس پر وہ واپس قاضی احمد آگئے۔

بچوں کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر ملزمان کو کتنی بار سزائے موت سنائی گئی

جب آج نیوز نے ان سے پوچھا کہ آپ کے رشتہ داروں نے آپ کی مدد کیوں نہیں کی؟ تو عبدالحمید نے کہا کہ گاؤں وریام مہر ان کا آبائی گاؤں ہے اور سارے کا سارا گاؤں ان کے رشتہ داروں کا ہے۔ پسند کی شادی کو یہ لوگ تسلیم نہیں کرتے اس لئے کوئی رشتہ دار بیچ میں نہیں آتا، اگر کوئی آنا بھی چاہے تو اپنے بڑوں کے خوف سے خاموش رہتا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ جس شہر میں رہائش پذیر تھے وہاں بچی کی تدفین کیوں نہیں کی؟ تو اس پر عبدالحمید نے کہا کہ ہمارے والد اور دیگر رشتہ دار اسی آبائی قبرستان میں مدفون ہیں، اسی وجہ سے ہم نے بھی سوچا تھا کہ بچی کی تدفین آبائی قبرستان میں ہی کریں۔

عبدالحمید نے بتایا کہ جس بچی کا انتقال ہوا اس کا نام نور تھا اور عمر چار ماہ تین دن تھی، یہ ان کی پہلی اولاد تھی۔

انہوں نے بتایا کہ بچی کی موت پر ماں کی حالت بہت خراب تھی اور بے ہوشی میں تھی۔

ان کے شوہر عبدالحمید نے بتایا کہ مقامی ڈاکٹر کو دکھایا جس کے علاج سے کچھ بہتری ہوئی ہے۔

NawabShah

Love Marriage