ایران نے شام سے اپنے فوجی کمانڈروں اور اہلکاروں کا انخلا شروع کردیا
نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے شام سے اپنے فوجی کمانڈروں اور اہلکاروں کو نکالنا شروع کردیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ عراق اور لبنان سے نکالے جانے والوں میں قدس فورس کے سینئر رہنما بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ایرانی سفارتی عملہ، ان کے اہل خانہ اور عام شہریوں کو بھی منتقل کر دیا گیا ہے۔ پاسداران انقلاب کے دو ارکان اور علاقائی ذرائع اطلاعات کے مطابق انخلا جمعہ کی صبح شروع ہوا۔
انخلا کا دائرہ دمشق میں ایرانی سفارت خانے اور پاسداران انقلاب کے اڈوں تک بڑھایا گیا۔ ذرائع نے نیویارک ٹائمز کو اس بات کی تصدیق کی۔ سفارت خانے کا کچھ عملہ پہلے ہی روانہ ہو چکا ہے۔
خیال رہے کہ شام میں بشارالاسد مخالف فورسز تحریک الشام تیزی نے جنوبی شہر درعا پر قبضہ کر لیا ہے، یہ ایک ہفتے کے اندر شامی حکومتی فورسز کے ہاتھوں کھو جانے والا چوتھا شہر ہے۔
ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ فوج نے ایک معاہدے کے تحت درعا سے دستبرداری پر رضامندی ظاہر کی جس کے تحت فوج کے اہلکاروں کو دمشق کے شمال میں تقریباً 100 کلومیٹر (60 میل) کے فاصلے پر محفوظ راستہ فراہم کیا گیا۔
بشارالاسد کی اقتدار پر گرفت کو جھٹکا، اہم جنوبی علاقے ’درعا‘ پر باغیوں کا قبضہ
درعا پر قبضہ اس وقت ہوا جب شامی حکومت مخالف فورسز نے جمعہ کو دیر گئے حُمص کے مضافات تک پہنچنے کا دعویٰ کیا جو کہ دارالحکومت کو بحیرہ روم کے ساحل سے جوڑنے والا اسٹریٹجک شہر ہے۔
ایران ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ گیا، عالمی توانائی ایجنسی کا دعویٰ
سربراہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ گیا۔
دوسری جانب رافیل گروسی نے کہا ایران یورینیم کی ساٹھ فیصد تک افزدوگی کر چکا ہے جبکہ ایٹم بم بنانے کے لیے نوے فیصد یوینیم کی افزدوگی کی ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھنے سے ایٹمی تنصیبات پر حملوں کا خطرہ بھی بڑھا ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ وہ ایران کی ایٹمی تنصیبات اور تیل کی تنصیبات پر حملوں سے گریز کرے۔
ایران میں ایٹمی تنصیبات کتنی ہیں، اُن کی نوعیت کیا ہے اور ایران کس حد تک ایٹمی قوت کا حامل ہے یہ تمام باتیں بہت اہم ہیں اور تجزیہ کاروں کی توجہ بھی حاصل کر رہی ہیں۔
ایران نے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کی موجودگی اور اس کے جاری رہنے سے متعلق خبروں کی تردید کی ہے۔ ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی نگراں ادارے آئی اے ای اے کے مطابق ایران نے 2003 میں اپنا ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا خفیہ پروگرام روک دیا تھا۔
2015 میں ایران نے امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین سے معاہدہ کیا جس کے تحت وہ ایٹمی ہتھیاروں کی طرف لے جانے والے پروگرام سے دست بردار ہوا اور اسے اقتصادی پابندیوں میں کچھ نرمی دی گئی۔ 2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران سے ایٹمی معاہدہ ختم کردیا جس کے بعد ایران بھی اس معاہدے کے تحت عائد کی جانے والی پابندیوں کا احترام کرنے کا پابند نہ رہا۔
اب ماہرین کہتے ہیں کہ ایران یورینیم کی افزودگی کے معاملے میں 60 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ 90 فیصد کی منزل تک پہنچ کر وہ 4 ایٹم بم بنانے کے قابل ہوجائے گا۔
Comments are closed on this story.