قابل فارماسسٹ کی کمی پاکستانی شعبہ صحت کے چیلنجز میں بڑا اضافہ قرار

یہ خلا ادویات کی فروخت اور استعمال میں غیر محفوظ طریقوں کا باعث بن رہا ہے
شائع 28 جنوری 2025 01:41pm

پاکستان کا نظام صحت اس وقت ایک سنگین مسئلے کا سامنا کر رہا ہے اور وہ ہے ماہر اور عملی فارماسسٹس کی کمی۔ یہ خلا ادویات کی فروخت اور استعمال میں غیر محفوظ طریقوں کا باعث بن رہا ہے، جس کے نتیجے میں عوامی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

آج نیوز کے پروگرام ”آج پاکستان ود سدرہ اقبال“ میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PPMA) کے سابق چیئرمین سید فاروق بخاری نے اس مسئلے کی سنگینی کو اجاگر کیا۔

فاروق بخاری نے بتایا کہ پاکستان کے نظام صحت میں تقریباً 80 ہزار فارمیسیز شامل ہیں، لیکن ملک بھر میں صرف 55 ہزار فارماسسٹس رجسٹرڈ ہیں۔ ہر سال ڈھائی ہزار نئے فارماسسٹس میدان میں آتے ہیں، جن میں 45 فیصد مرد اور 55 فیصد خواتین شامل ہوتی ہیں۔ تاہم، گھریلو ذمہ داریوں، خصوصاً شادی کے بعد 25 فیصد خواتین فارماسسٹس اپنا کیریئر جاری نہیں رکھ پاتیں۔

انہوں نے کہا کہ ’زیادہ تر فارماسسٹس فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں اپنی ملازمت کے مواقع کو ترجیح دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں فارمیسیز میں عملے کی شدید کمی ہو جاتی ہے‘۔

فاروق بخاری نے فارمیسی سے متعلقہ کیریئرز میں ترقی کے وسیع مواقع کو اجاگر کیا، جو نظامی غفلت کے باعث مکمل طور پر استعمال نہیں کیے جا رہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ کئی فارمیسیز غیر تربیت یافتہ افراد کے ذریعے چلائی جا رہی ہیں، جو ماہرین کی کمی کے باعث ادویات کے غلط استعمال اور ان کے فراہم کرنے میں سنگین خطرات پیدا کر رہے ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی کہ ’غیر ماہر افراد ڈاکٹروں کے نسخے کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں، خصوصاً جب ان میں پیچیدہ کیمیکل نام شامل ہوں‘۔

یہ صورتحال مزید اس وقت خراب ہو جاتی ہے جب جعلی ڈاکٹروں کے ذریعے غیر قانونی نسخے فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ غیر تربیت یافتہ افراد صحت کی خدمات میں موجود خلا کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ادویات کے غلط استعمال میں اضافہ کرتے ہیں۔

فارماسسٹس کی کمی کا ایک نمایاں نتیجہ اینٹی بایوٹک ادویات کا بے جا استعمال ہے، جس کے باعث ”اینٹی مائیکروبائل ریزسٹنس“ (AMR) میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان میں ہر سال تقریباً 7 لاکھ اموات کا باعث بنتا ہے۔

فاروق بخاری نے خبردار کیا کہ ماہرین کی نگرانی کے بغیر ادویات کی فروخت سے سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’فارمیسی ایسا کاروبار نہیں ہے جسے کوئی بھی چلا سکے۔ اس کے لیے چار سال کی سخت تربیت اور ڈاکٹر آف فارمیسی (PharmD) ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے۔ بغیر تصدیق کے یہ انتہائی خطرناک ہے۔‘

اس بحران سے نمٹنے کے لیے انہوں نے اصلاحات پر زور دیا، تاکہ فارماسسٹس کو فارمیسیز میں کام کرنے کے لیے ترغیب دی جا سکے، بجائے اس کے کہ وہ فارماسیوٹیکل انڈسٹری کی طرف منتقل ہوں۔

انہوں نے سخت قوانین بنانے کی بھی سفارش کی، تاکہ غیر تربیت یافتہ افراد کو ادویات فراہم کرنے سے روکا جا سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ تمام فارمیسیز ماہرین کی نگرانی میں ہوں۔

lack of Pharmacists