ملٹری ٹرائلز کیس کے دوران زیر بحث بریگیڈیئر فرخ بخت علی کون تھے؟
سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائلز کے مقدمے میں ان دنوں بریگیڈیئر فرخ بخت علی (ریٹائرڈ) کا نام بار بار سامنے آ رہا ہے جو اپنے نام کے مخفف بریگیڈیئر ایف بی علی کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ بریگیڈئیر علی سے وابستہ ایک مشہور مقدمے کا بھی ذکر ہو رہا ہے جسے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے جواز میں پیش کیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران منگل کے روز بھی ایف بی علی کیس پر بات ہوئی کیونکہ بریگیڈیئر ایف بی علی کو ریٹائرمنٹ کے بعد کورٹ مارشل کیا گیا تھا اور پھر ان کا مقدمہ سپریم کورٹ میں آیا جہاں آرمی ایکٹ کے تحت سابق فوجی افسران کے کورٹ مارشل کو درست قرار دیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ بریگیڈیئر ایف بی علی یا فرخ بخت علی کون تھے؟
فرخ بخت علی تقسیم ہند سے پہلے پٹیالہ میں پیدا ہوئے اور نومبر 1948 میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے پاس ہونے والے افسران میں شامل تھے۔
ان کا تعلق آرٹلری سے تھا اور فوج میں ترقی کرتے کرتے وہ 1971 میں بریگیڈیئر بنے۔
شجاع نواز کی کتاب ’کراسڈ سورڈز‘ کے مطابق بریگیڈیئر ایف بی علی ان افسران میں شامل تھے جنہوں نے 1971 میں جنرل یحیٰ خان کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا تھا۔
اگرچہ یحیی خان نے بعد میں ایک مقدمے کے دوران لاہور ہائی کورٹ میں اپنے جواب میں دعویٰ کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل گل حسن خان اور فضائیہ کے سربراہ رحیم خان نے انہیں ہٹانے کی سازش کی۔ تاہم شجاع نواز بریگیڈیئر ایف بی علی کے کردار کا بھی ذکر کرتے ہیں۔
خود بریگیڈیئر ریٹائرڈ ایف بی علی کی سوانح حیات PRISON JOURNEY میں بھی یحییٰ کو ہٹانے کا کریڈٹ لیا گیا ہے۔
اس واقعے کے کچھ ہی عرصے بعد اگست 1972 میں ایف بی علی فوج سے ریٹائر ہو گئے۔ بعض روایات کے مطابق انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔
جنرل یحییٰ کے بعد اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کیا گیا۔ 1973 میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ ایف بی علی سمیت کچھ لوگوں کو بھٹو حکومت کے خلاف سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ بریگیڈیئر ایف بی علی کا کورٹ مارشل ہوا اور اس کارروائی کے سربراہ یعنی کورٹ مارشل جنرل بنے اس وقت کے میجر جنرل ضیا الحق جو بعد میں جنرل اور آرمی چیف کے عہدے تک پہنچے۔
بریگیڈیئر ایف بی علی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
اس بات کو بطور ستم ظریفی بیان کیا جاتا ہے کہ بریگیڈیئر ایف بی علی کو سزا سنانے والے جنرل ضیا الحق نے چند برس بعد خود بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
1975 میں ایف بی علی کیس (PLD 1975 SC 506) سپریم کورٹ کے سامنے تھا جہاں چیف جسٹس جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کے سامنے سوال آیا کہ کیا ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔
ریٹائرڈ افسران اور سویلینز کے کورٹ مارشل کی بنیاد 1952 کے آرمی ایکٹ میں سن 1967 میں ہونے والی ترمیم کو بنایا جاتا ہے۔ اس ترمیم کے تحت آرمی ایکٹ کے سیکشن ڈی میں ردوبدل کرکے ریٹائرڈ افسران اور سویلینز تک اس ایکٹ کا دائرہ پھیلایا گیا ہے۔
مختصرا یہ کہ جسٹس حمود الرحمان کی سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ریٹائرڈ افسران اور سویلینز کا آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہو سکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بریگیڈیئر ایف بی علی کیس کا ذکر ان دنوں سپریم کورٹ میں بار بار آ رہا ہے۔
جنرل ضیا کے برسر اقتدار آنے کے کچھ عرصے بعد بریگیڈیئر ایف بی علی کو مئی 1978 میں رہا کیا گیا جس کے بعد وہ کینیڈا چلے گئے۔ فروری 2021 میں وہیں ان کا انتقال ہوا۔
بریگیڈیئر ایف بی علی نے اپنی سواںح حیات میں دعویٰ کیا کہ جنرل ضیا نے انہیں نئے سیٹ اپ میں اہم کردار کی پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے خاندان سمیت کینیڈا جانا بہتر سمجھا۔
Comments are closed on this story.