پیکا ایکٹ میں ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردی گئی
پیکا ایکٹ میں ترامیم کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کردیا گیا۔
شہری قیوم خان کی جانب سے پیکا ایکٹ میں ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، جس میں صدر پاکستان، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ اور سیکرٹری قانون کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پیکا ایکٹ میں حالیہ ترمیم بنیادی انسانی حقوق اور آئین سے متصادم ہے، پیکا ایکٹ کی شقیں آزادی اظہار رائے کے بنیادی حق کے برخلاف ہیں، پیکا ایکٹ کو جعلی اسمبلی نے پاس کیا، جعلی اسمبلی کے منتخب صدر نے توثیق کی۔
دائر درخواست میں پیکا ایکٹ میں کی گئی ترامیم کالعدم قرار دینے اور پیکا ترامیم کے خلاف سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔
صدر مملکت نے پیکا ترمیمی بل 2025 پر دستخط کردیے، متنازع ایکٹ قانون بن گیا
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ فل کورٹ نہ صرف ترامیم بلکہ اصل پیکا ایکٹ کا بھی بنیادی انسانی حقوق کی روشنی میں جائزہ لے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز (29 جنوری) صدر مملکت آصف زرداری نے پیکا ترمیمی بل 2025 پر دستخط کردیے تھے، جس کے بعد پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قانون بن گیا ہے۔
23 جنوری کو قومی اسمبلی نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل منظور کیا تھا، جبکہ یہ بل سینیٹ سے 28 جنوری کو منظور ہوا تھا۔
صحافتی تنظمیوں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل مسترد کردیا تھا اور اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے اور احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
صحافی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت قومی اسمبلی سے مشاورت کے بغیر متنازع بل منظور کروا کر وعدہ خلافی کی مرتکب ہوئی ہے، اس بل کا محور صرف سوشل میڈیا نہیں بلکہ اس کا ہدف الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز بھی ہیں جس کا مقصد اختلاف رائے کو جرم بنا دینا ہے۔
پیکا ایکٹ ترمیمی قانون 2025
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 22 جنوری کو پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔
دی پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (ترمیمی) بل 2025 میں سیکشن 26 (اے) کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے تحت آن لائن ’جعلی خبروں‘ کے مرتکب افراد کو سزا دی جائے گی، ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی شخص جان بوجھ کر جھوٹی معلومات پھیلاتا ہے، یا کسی دوسرے شخص کو بھیجتا ہے، جس سے معاشرے میں خوف یا بےامنی پھیل سکتی ہے، تو اسے تین سال تک قید، 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
متنازع پیکا قانون کیخلاف صحافیوں کا احتجاج رنگ لانے لگا، حکومتی صفوں سے بھی آواز بلند ہوگئی
پیکا ایکٹ ترمیمی قانون 2025 کے مطابق سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔
ترمیمی ایکٹ کے مطابق اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن اور رجسٹریشن کی منسوخی، معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی جبکہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی۔
پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہوگی، سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کا متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے پیکا ترمیم کو کالا قانون قرار دے دیا، چیلنج کرنے کا اعلان
ایکٹ کے مطابق اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پیمرا، چیئرمین پی ٹی اے (یا چیئرمین پی ٹی اے کی جانب سے نامزد کردہ کوئی بھی رکن) ہوں گے، بیچلرز ڈگری ہولڈر اور متعلقہ فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ رکھنے والا شخص اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جاسکے گا، چیئرمین اور 5 اراکین کی تعیناتی پانچ سالہ مدت کے لیے کی جائے گی۔
دیگر 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ وئیر انجینئر بھی شامل ہوں گے جب کہ ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہو گا۔
ترمیمی ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل قائم کرے گی، ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہو گا، صحافی، سافٹ ویئر انجینئر بھی ٹربیونل کا حصہ ہوں گے۔
Comments are closed on this story.