عادل راجہ نے سابق فوجی افسر کے خلاف لگائے گئے الزامات تسلیم کرلیے
یوٹیوبر اور تبصرہ نگار عادل راجہ نے لندن ہائی کورٹ میں بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کی جانب سے دائر ہتکِ عزت کیس کے فیصلے کے بعد تسلیم کرلیا ہے کہ انہوں نے سابق فوجی افسر کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے ہتک آمیز الزامات لگائے تھے۔ عدالت نے انہیں معافی مانگنے، ہرجانہ اور قانونی اخراجات ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔
لندن ہائی کورٹ میں پاک فوج کے سابق افسر بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) راشد نصیر کی جانب سے دائر ہتکِ عزت کے مقدمے کا فیصلہ آنے کے بعد یوٹیوبر عادل راجہ نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے راشد نصیر سے متعلق وہ الزامات لگائے تھے جن کے دفاع میں ان کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔
ایکس پر اپنی پوسٹ میں عادل راجہ نے کیس کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’9 اکتوبر کو لندن ہائی کورٹ نے مجھے راشد نصیر کو ان کے قانونی اخراجات کے علاوہ 50 ہزار پاؤنڈ ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا‘۔
انہوں نے کہا ہتکِ عزت کیس میں ان پر عائد الزامات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے 14 اور 29 جون 2022 کے درمیان راشد نصیر کے بارے میں متعدد ہتک آمیز الزامات لگائے اور میرے پاس ان الزامات کے دفاع کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا‘۔
عادل راجہ نے اپنی پوسٹ کے ساتھ برطانوی عدالت کے فیصلے کا لنک بھی شیئر کیا ہے۔ مقدمے کی سماعت کے بعد لندن ہائی کورٹ کے جج جسٹس رچرڈ اسپیئر مین نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ویب سائٹ پر 28 دن تک معافی نامہ شائع رکھیں۔
عدالت نے عادل راجہ پر 50 ہزار پاؤنڈ ہرجانہ اور 2 لاکھ 60 ہزار پاؤنڈ قانونی اخراجات ادا کرنے کا حکم بھی دیا، جو انہیں 22 دسمبر تک ادا کرنا ہوں گے۔ عدالت پہلے ہی یہ قرار دے چکی ہے کہ عادل راجہ کے الزامات بے بنیاد اور ہتک آمیز تھے۔
عادل راجہ نے لندن ہائی کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی جانب سے لگائے الزامات کا الزامات ان کے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔ انہوں نے ایکس، فیس بک، یوٹیوب اور ویب سائٹ پر بھی عدالتی فیصلے کا لنک بھی شائع کیا۔












